کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 373
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: برباد ہو، اس وقت تمہاری عقلیں کہاں تھیں؟ اس طرح کا کلام نہ تو معبود سے صادر ہو سکتا ہے اور نہ نیک شخص سے۔[1]
علمائے تاریخ نے بیان کیا ہے کہ مسیلمہ کذاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت اختیار کرتا تھا۔ اس کو یہ خبر ملی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنویں میں تھوکا تو وہ پانی سے بھر گیا، اس نے بھی ایک کنویں میں تھوک مارا جس سے اس کا پانی کلی طور پر خشک ہوگیا۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ اس کا پانی نمکین ہو گیا۔ اس نے وضو کیا اور اپنے وضو کے پانی سے ایک کھجور کے درخت کو سیراب کیا تو وہ خشک ہو کر ختم ہو گیا۔ اس کے پاس کچھ بچے لائے گئے تاکہ ان کے لیے برکت کی دعا کرے، وہ ان کے سروں پر ہاتھ پھیرنے لگا تو بعض کا سر گنجا ہو گیا اور بعض کی زبان میں ہکلاپن آگیا۔ ایک شخص کی آنکھ میں تکلیف تھی اس نے دعا کر کے اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ اندھا ہو گیا۔[2]
قرآن کا جمع وتدوین:
معرکہ یمامہ میں جام شہادت نوش کرنے والے مسلمانوں میں بہت سے حفاظ قرآن تھے۔ اس کے نتیجہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے قرآن کو جمع کرنے کا اہتمام فرمایا۔ قرآن کو جھلّیوں، ہڈیوں، کھجور کی شاخوں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کیا گیا۔[3] ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس عظیم کام کی ذمہ داری صحابی جلیل زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سر ڈالی۔
زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ معرکہ یمامہ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوایا، میں وہاں پہنچا تو آپ کے پاس عمر رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے۔ آپ نے مجھ سے فرمایا:
’’عمر میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ معرکہ یمامہ میں بہت سے حفاظ قرآن شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ اسی طرح دوسرے مقامات پر بھی حفاظ کی شہادت ہوئی تو اس طرح بہت سا حصہ قرآن کا ضائع ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم صادر فرمائیں۔ میں نے عمر سے کہا: میں وہ کام کیسے کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔[4] عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: واللہ یہ خیر ہے، اور برابر اس سلسلہ میں اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے اس چیز کا شرح صدر کر دیا جس کا شرح صدر عمر کو کیا تھا اور میری بھی وہی رائے ہے جو عمر کی ہے۔ تم عقلمند نوجوان ہو، تم پر ہم
[1] تاریخ الطبری: ۴/۱۱۸، البدایۃ والنہایۃ: ۶/۲۳۱۔
[2] البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۳۱۔
[3] حروب الردۃ: احمد سعید ۱۴۵۔
[4] اس کا قوی احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کو مصحف میں اس لیے جمع نہیں کیا کیونکہ قرآن کا نزول جاری تھا اور ناسخ ومنسوخ کا سلسلہ چل رہا تھا (اور کبھی کوئی آیت نازل ہوتی اور کبھی کوئی، اور جبریل علیہ السلام آپ کو بتاتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں فلاں آیت سے پہلے اور فلاں کے بعد رکھا جائے) اس لیے جمع کرنا ممکن نہ تھا لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ نزول قرآن کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے خلفائے راشدین کو الہام کیا اور انہیں شرح صدر عطا کر دیا۔ سیرۃ وحیاۃ الصدیق: ۱۲۰۔