کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 36
مستشرقین، روافض اور ان کے مقلدین نے جو شبہات ابھارے ہیں اور غلط پروپیگنڈہ کیا ہے اس کا پردہ چاک کیا اور ان شبہات کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ لشکر اسامہ کو اپنی مہم پر بھیجنے کے سلسلہ میں صدیق کے مؤقف کو بیان کرتے ہوئے اس عظیم واقعہ کے اندر شورائیت، دعوت، عزم و حوصلہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء، کتاب وسنت کی طرف رجوع، آداب جہاد سے متعلق جو دروس و عبر ہیں انہیں ذکر کیا، فتنہ ارتداد کی توضیح کی، اس کے اسباب واصناف بیان کیے۔ کس طرح یہ فتنہ دور نبوی کے آخر میں شروع ہوا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے دور میں کیا مؤقف رہا؟ اس کو ختم کرنے کے لیے آپ نے جو لائحہ عمل وضع کیا اور مرتدین کے خلاف جنگ میں جو اسلوب اختیار کیا اس کو تفصیل سے بیان کیا اور صدیق اکبر کی ان صلاحیتوں کا سراغ لگایا جو آپ کی شخصیت کے اندر موجود تھیں، جن کے ذریعہ… اللہ کی توفیق کے بعد… ارتداد کی تحریک کو کچل دیا۔ پھر آپ کے دور سے متعلق گفتگو کی اور کس طرح اس میں غلبہ و تمکین کے شروط واسباب موجود تھے اور غلبہ وتمکین سے بھرپور نسل کی صفات کو بیان کیا جس کی قیادت صدیق نے کی۔ اور آپ نے اپنی حکومت میں خارجہ دخل اندازی کو ختم کرنے کے لیے جو سیاست وپالیسی اختیار کی اس کی طرف اشارہ کیا۔ واقعہ ارتداد کے اہم نتائج کو ذکر کیا۔ مثلاً اسلام کا دوسرے افکار وتصورات اور سلوک واعمال سے ممتاز ہونا، معاشرہ کے لیے قوی بنیادی اصول کاپایا جانا، جزیرۃ العرب کو اسلامی فتوحات کا مرکز بنانا، فتوحات کی تحریک کے لیے قائدین کو تیار کرنا، تحریک ارتداد سے رونما ہونے والی فقہ، سازش گروں کو ان کی اپنی سازش میں مبتلا کر دینے کی الٰہی سنت، جزیرۃ العرب میں اداری نظام کا استقرار اور اسی طرح میں نے عہد صدیقی کی فتوحات پر روشنی ڈالی اور فتح عراق کے سلسلہ میں آپ کی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کو بیان کیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا، انہوں نے اپنی عظیم جنگی مہموں کے ذریعہ سے عراق کے شمال وجنوب کو اسلامی خلافت میں شامل کر لیا، جن کے اندر مثنیٰ بن حارثہ، قعقاع بن عمرو اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم اور آپ کے فتح مند لشکر کی نادرئہ روزگار بہادریاں نمایاں ہوئیں۔ یہ دور صدیقی کے بعد آنے والی عظیم فتوحات کا پہلا قدم تھا، جس نے امت کی تاریخ کو دین کی نشرواشاعت اور اللہ کی راہ میں طویل جہاد کے سلسلہ میں تابناک بنا دیا۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
فالقادسیۃ ما یزال حدیثھا
عِبَرٌ تُضِیُٔ بأطیب الألوانِ
’’قادسیہ کے واقعہ میں برابر دروس وعبر ہیں جو پاکیزہ رنگوں میں ضیا پاشی کرتے ہیں۔‘‘
تُحْکِی مفاخرَنا وَتَذْکُرْ مَجْدَنَا
فَتُجِیْبُہَا حِطِّیْنُ بالمنوالِ
’’یہ واقعہ ہمارے مفاخر کو بیان کرتا ہے اور ہمارے شرف ومنزلت کو ذکر کرتا ہے، پھر اسی طرز پر حطین