کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 350
ہے، عام قتل نہیں بلکہ مثلہ کر کے شکلیں بگاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کرتا ہے۔ اسلام اور جاہلیت میں یہی فرق ہے۔ اسلام زبان کا احترام، انسان کا احترام کرتا ہے اور دشمن کے ساتھ شرافت و مردانگی کے ساتھ پیش آتا ہے اور جاہلیت فساد فی الارض اور خواہشات نفس کی اتباع کے علاوہ کچھ نہیں جانتی۔[1]
۴۔ رجال بن عنفوہ حنفی:
بنو حنیفہ میں مسیلمہ کذاب کی دعوت قوت پکڑ گئی۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کے مکر و فریب کو قبول کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تھے اور اس فتنہ کا شکار رَجّال بن عنفوہ بھی ہو گیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تھی اور اسلام قبول کر کے قرآن پڑھا اور بعض سورتیں حفظ بھی کر لی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مسیلمہ کے پاس بھیجا تاکہ وہاں جا کر لوگوں کو اس فتنہ کی حقیقت سے آگاہ کرے اور اس طرح مسیلمہ کے پیروکار اس کا ساتھ چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں۔ لیکن مسئلہ اس کے برعکس ہو گیا، یہ وہاں پہنچ کر لوگوں کے سامنے اس بات کی شہادت دینے لگا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مسیلمہ کو نبوت میں شریک کر لیا ہے۔ یہ بدبخت لوگوں کے لیے مسیلمہ سے بڑھ کر فتنہ ثابت ہوا۔[2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں رجال کے برے انجام کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: میں کچھ لوگوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا، ہمارے ساتھ رجال بن عنفوہ بھی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں ایک شخص ایسا ہے جس کا دانت جہنم میں احد پہاڑ سے بڑا ہوگا۔ اس مجلس میں شریک تمام افراد وفات پا گئے، صرف میں اور رجال باقی رہے۔ میں اس فرمان کی وجہ سے خوف زدہ رہتا تھا، یہاں تک کہ رجال نے مسیلمہ کے ساتھ خروج کیا اور اس کی نبوت کی شہادت دی۔ رجال کا فتنہ مسیلمہ کے فتنہ سے عظیم ثابت ہوا۔[3]
بنو حنیفہ میں سے اسلام پر ثابت قدم رہنے والے:
یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے ارتداد کی خبروں نے اس قدر زور پکڑا کہ یمامہ اور خاص کر بنو حنیفہ کے ثابت قدم رہنے والے سچے مسلمانوں کی ثابت قدمی کی خبریں اسی میں گم ہو گئیں۔ اسی لیے اکثر جدید مؤلفین نے ان
[1] حرکۃ الردۃ للعتوم: ۷۴۔
[2] حرکۃ الردۃ للعتوم: ۷۵۔ علامہ ابن کثیر کے بیان کے مطابق رجال کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل یمامہ کو ارتداد سے باز رکھنے اور اسلام کی طرف دعوت دینے اور ثابت قدم رکھنے کے لیے بھیجا تھا اور وہ وہاں پہنچ کر مسیلمہ کا دایاں بازو بن گیا۔ دیکھیے: البدایۃ والنہایۃ: ۶/۳۲۳، اور مؤلف نے آگے چل کر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی جو روایت پیش کی ہے اس سے ابن کثیر کے بیان کی تائید ہوتی ہے کہ اس کے ارتداد کا واقعہ دور صدیقی کا ہے۔ (مترجم)
[3] تاریخ الطبری: ۴/۱۰۶، لیکن یہ روایت ابن اسحق نے ایک مجہول شخص کے واسطہ سے روایت کی ہے لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔ (مترجم)