کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 33
افواہوں کو پھیلانے اور خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرنے اور فتنے گھڑنے میں لگ گئے۔ عبداللہ بن سبا یہودی اور اس کے کارندوں نے فتنہ کی آگ بھڑکانے میں اہم رول ادا کیا، جس کے نتیجے میں تیسرے خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کا مظلومانہ قتل ہوا اور اسی طرح واقعہ جمل میں جبکہ فریقین کے درمیان تمام غلط فہمیاں ختم ہو چکی تھیں اور مصالحت کی بات چل رہی تھی، ان لوگوں نے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ اس کے علاوہ دیگر نقل وحرکت اور سازشیں جن سے مقصود، اسلام اور اتباع اسلام کو تباہ و برباد کرناتھا، مزید برآں اسلامی تاریخ کے اندر ضعیف وموضوع روایات کا اضافہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت داغ دار کرتی ہیں، جیسے واقعہ تحکیم کا افسانہ جس میں بعض صحابہ کو خدع ومکر اور جاہ وحشمت کی طلب سے متصف قرار دیا گیا تو بعض کو حماقت وغباوت اور کند ذہنی سے متصف کیا گیا۔ اس طرح کی روایات کے وضع کرنے سے مقصود نامحسوس انداز میں اسلام کو متہم قرار دینا اور اس کو ہدف ملامت بنانا تھا کیونکہ اسلام ہمیں صحابہ ہی کے ذریعہ سے ملا ہے لہٰذا ان کی ثقاہت وعدالت میں تشکیک لازمی طور پر اسلام کی صحت میں تشکیک ہے۔ ان موضوع ومن گھڑت روایات کا مستشرقین اور ہمارے ہم زبان ان کے مقلدین نے سہارا لیا اور اپنی پوری توجہ ان پر مرکوز کر دی اور اس کی بحث وکرید میں توسع سے کام لیا اور اس کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے اس کو جمع کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کیونکہ اس سے اسلام اور صحابہ کرام کے سلسلہ میں طعن وتشنیع اور اتہام جیسے مقاصد میں مدد ملتی ہے۔[1]
اعدائے اسلام نے ہماری تاریخ کو اپنے منحرف مناہج کے موافق ڈھال کر پیش کیا اور بعض مسلم مورخین ان درآمد شدہ مناہج سے بری طرح متاثر ہوئے اور پچھلی دہائیوں میں انہوں نے اعدائے امت مستشرقین، کمیونسٹوں اور روافض ویہود کی حرف بحرف ترجمانی کر ڈالی۔ کیونکہ اسلام کی روح وطبیعت کا ان کے پاس صحیح تصور نہیں تھا، حالانکہ اسلامی تاریخ پر قلم اٹھانے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ انسان کو اسلامی فکر کی حقیقت اور زندگی اور واقعات اور اشیاء کے سلسلہ میں اس کے نظریات کا بخوبی علم وادراک ہو اور پھر لوگ جن مبادی واصول پر قائم ہیں اس سے موازنہ کیا جائے اور روح وفکر اور نفوس وشخصیات کی تعمیر میں اس کی تاثیر کو سمجھا جائے… اسلامی شخصیات کا مطالعہ خاص کر اس بات کا متقاضی ہے کہ اسلامی فکر کی تاثیر قبول کرنے کے سلسلہ میں اسلامی شخصیات کے مزاج کا مکمل ادراک ہو، کیونکہ ان تاثیرات کے قبول کرنے کا طریقہ انسان کے شعور وسلوک اور واقعات کے ساتھ تاثر کو ڈھالنے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اسلامی فکر کی حقیقت اور اسلامی شخصیات کے طریقہ اخذ وقبول کا ادراک صرف وہی مؤلف کر سکتا ہے جو اسلامی فکر پر ایمان رکھتا ہو اور دل کی گہرائیوں سے اس کو قبول کرتا ہو، تاکہ یہ ادراک اس کے ضمیر کی سچی آواز ہو، صرف خالی ظاہر ی ذہنی اپج نہ ہو۔[2]
[1] دیکھیے: شیخ صادق عرجون کی کتاب خالد بن الولید پر سید قطب کا مقدمہ،ص ۵۔
[2] دیکھیے: شیخ صادق عرجون کی کتاب خالد بن الولید پر سید قطب کا مقدمہ، ص ۵۔