کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 30
اور جب میں نے جامعہ اسلامیہ ام درمان میں دکتورہ کے لیے تسجیل کرائی تو مقالہ کا عنوان تھا: ’’فقہ التمکین فی القرآن الکریم واثرہ فی تاریخ الامۃ‘‘ اور یہ مقالہ تین ابواب پر مشتمل قرار پایا: فقہ التمکین فی القرآن الکریم، فقہ التمکین فی السیرۃ النبویۃ، فقہ التمکین عند الخلفاء الراشدین، اور یہ ۱۲۰۰ صفحات سے متجاوز ہو گیا۔ جس کی وجہ سے مشرف کی رائے یہ ہوئی کہ اس سلسلہ میں ’’فقہ التمکین فی القرآن الکریم‘‘ پر اکتفا کیا جائے اور اسی اساس پر اس کے اندر تعدیل کر دی اور یہ رائے کمیٹی کے سامنے پیش کر کے موافقت لے لی اور مناقشہ کے بعد مجھ سے کہا: اب تم ’’فقہ التمکین فی السیرۃ النبویۃ‘‘ اور ’’فقہ التمکین عند الخلفاء الراشدین‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کر سکتے ہو تاکہ اہل اسلام اس سے مستفید ہوں۔ اللہ کی توفیق اور جو اسباب اس نے ہمارے لیے مہیا کیے اس کی وجہ سے ’’فقہ التمکین فی السیرۃ النبویۃ‘‘ میں تطور آیا، اور وہ ’’السیرۃ النبویۃ عرض وتحلیل‘‘ کی شکل اختیار کر گئی۔
یہ کتاب ’’ابوبکر الصدیق شخصیتہ وعصرہ‘‘ جس کا اس وقت میں مقدمہ تحریر کر رہا ہوں، اس کی تالیف اللہ کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے اور پھر اس کا سہرا مشرف محترم اور ان علماء وشیوخ اور دعاۃ کے سر ہے جنہوں نے اس سلسلہ میں ہماری ہمت افزائی کی، ان میں سے ایک کرم فرما نے مجھ سے کہا: مسلمانوں کی نسل جدید اور خلفائے راشدین کے دور کے درمیان بڑا بعد پیدا ہو گیا ہے، اولویات کی ترتیب میں بڑی گڑبڑی رونما ہو گئی ہے، دور حاضر کے نوجوان، علماء ومصلحین کی سیرتوں کے ساتھ خلفائے راشدین کی سیرتوں کی بہ نسبت زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں، حالانکہ خلفائے راشدین کا دور سیاسی، نشریاتی، اخلاقی، اقتصادی، فکری، جہادی، فقہی جوانب سے بھرپور ہے، جن کی آج ہمیں شدید ضرورت ہے۔ آج ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اسلامی سلطنت کے مختلف اداروں کا تتبع کریں اور دیکھیں کہ زمانے کے ساتھ ان میں کس طرح تطور آیا، جیسے فضائی، مالی، نظام خلافت، عسکری اور ولاۃ کی تعیین کے مختلف ادارے اور جب امت اسلامیہ کا فارسی اور رومی تہذیب و تمدن سے پالا پڑا تو اس دور میں کیا اجتہادات رونما ہوئے اور اسلامی فتوحات کی طبعی حالت کیسی رہی۔
اس کتاب کا آغاز غور و فکر سے ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں تبدیل کرنا چاہا، اللہ نے مجھے توفیق بخشی اور اس سے متعلق تمام امور آسان کر دیے، دشواریوں اور مشکلات کو دور کر دیا، مراجع اور حوالہ جات کو مہیا کر دیا اور میرے ذہن ودماغ پر اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بھوت سوار ہو گیا اور میں نے اس کو اپنا سب سے بڑا ہدف بنا لیا، اس کے لیے شب بیداری شروع کر دی، مشکلات وپریشانیوں کی چنداں فکر نہ کی اور اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی کرم رہا کہ اس نے اس سلسلہ میں میری مدد فرمائی۔ بقول شاعر ع
اَلْہَولُ فِی دَرْبِی وَفِیْ ہَدَفِی
وَأَظَلُّ أَمْضِیْ غَیْرَ مُضْطَرِبِ