کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 27
’’جب اللہ اور رسول کسی امر میں فیصلہ صادر کر دیں تو پھر کسی مومن مرد، عورت کو یہ اختیار حاصل نہیں رہ جاتا کہ وہ اپنے بارے میں کوئی اور فیصلہ کرے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ شدید گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔‘‘ ان دونوں آیات کی روشنی میں اس واقعہ کو دیکھیے، فاطمہ بنت رسول اللہ، ابوبکر خلیفہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور فدک کی وراثت کے بارے میں اپنا دعویٰ پیش کیا۔ ابوبکر نے اپنی طرف سے کوئی حکم صادر نہیں کیا اور بنت رسول اللہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنائی جس سے ان کے دعویٰ کی نفی ہوتی تھی۔ فاطمہ اپنے باپ کا فرمان مبارک سن کر کبیدہ خاطر ہوئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ترک کلام کیا۔ کیا معاندین سمجھتے ہیں کہ اس گرامی مرتبت خاتون جنت کو قرآن عظیم کی ان آیات کا عرفان نہیں تھا، کیا اس جگر گوشہ رسول، مومنہ صادقہ اور صحابیہ سے ایک لمحے کے لیے بھی یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ فرمان رسالت سن کر اپنی طبیعت میں تنگی اور گرانی محسوس کرے اور اگر خدانخواستہ ایسا تھا تو مذکورہ بالا آیات قرآنی کے تناظر میں وہ کہاں ٹھہرتی ہیں۔ یہ بدنصیب و بے شعور عقیدت مندان بنت رسول یہ نہیں سوچتے کہ اپنی جفائے وفا نما سے وہ رسول، جگر گوشہ رسول، امت رسول اور خود دین رسول پر کیسا ستم ڈھا رہے ہیں کیونکہ اس سارے مسئلہ میں ابوبکر پر کوئی الزام نہیں آتا، خود سیدہ فاطمۃ الزہراء کے ملکوتی کردار پر حرف آتا ہے۔ (نعوذ باللّٰہ من شرور انفسنا) فاضل مؤلف نے اس بارے میں علامہ عینی کے حوالے سے مہلبؒ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’ابوبکر اور فاطمہ کے درمیان میراث کے مسئلہ پر ملاقات ہوئی، اس کے بعد فاطمہ نے گھر کو لازم پکڑ لیا، جسے راوی نے ترک تعلق سے تعبیر کیا۔‘‘ (ص ۲۳، ۳۲۲) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عدیم النظیر اور گرانمایہ خدمات میں جو بات بنیادی اہمیت رکھتی ہے وہ اس ذات گرامی کا عزم وعزیمت ہے۔ جب رحلت نبوی کے بعد قبائل نے اعانتیں طلب کرنا شروع کر دیں، زکوٰۃ میں تخفیف کے مطالبات پیش کیے جانے لگے اور اس پر آشوب دور اور نازک حالات کے پیش نظر خود عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسا دیدہ ور اور عزیمت آشنا مرد مومن بھی تذبذب کا شکار ہو گیا اور خلیفۂ رسول سے سفارش کرنے لگے کہ زکوٰۃ کی وصولی کے سلسلے میں نرمی سے کام لیا جائے۔ اللہ کی رحمتیں اور سلام ہو اس پیکر عزیمت، افضل البشر بعد الانبیاء پر کہ اس کے ایمان وعزیمت میں لمحہ بھر کے لیے بھی تزلزل نہیں آیا۔ اس نے عمر جیسے صائب الرائے مشیر اور جلیل القدر صحابی کے مشوروں کو یکسر مسترد کر دیا اور مومنانہ عزم وبصیرت کے ساتھ اعلان کر دیا کہ اگر زکوٰۃ میں اونٹ کی ایک رسی بھی روکی گئی تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا۔ فرض کیجیے کہ اگر خلیفۂ رسول اس وقت استقامت کا مظاہرہ نہ کرتے، وقتی طور پر نرمی اور رعایت کا وتیرہ اختیار کر لیتے تو دین میں کیسا خلل واقع ہو جاتا وہ وقتی رعایت ارکان دین میں رخصت ورعایت کے لیے نظیر بن جاتی۔ زکوٰۃ کی طرح نماز، روزہ اور حج میں بھی رخصت