کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 25
کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ متنازعہ فیہ واقعات کا حقائق وشواہد کی روشنی میں تجزیہ کر کے صحیح نتائج اخذ کیے گئے ہیں مثلاً عام طور پر یہ مشہور ہے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت خلافت سے اختلاف کرتے ہوئے سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ ان سے یہ الفاظ منسوب کیے گئے ہیں: ’’میں اس وقت تک تم سے بیعت نہیں کروں گا جب تک اپنے ترکش میں موجود تمام تیر تم پر نہ برسا لوں اور اپنے نیزے کو خون آلود نہ کر لوں اور اپنی تلوار سے مار نہ لوں۔‘‘ اس کے بعد وہ ان کے ساتھ نہ تو نماز پڑھتے تھے نہ ان کی محفلوں میں شریک ہوتے نہ ان کے فیصلہ کو تسلیم کرتے، نہ حج میں ان کا ساتھ دیتے۔‘‘ (ص۲۲۶)
اس روایت کے حوالے سے مؤلف تحریر کرتے ہیں: ’’بعض خواہش پرست اور بدعتی تاریخ نگاروں نے اس بات کی ناپاک کوشش کی ہے کہ وہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مہاجرین کے مخالف اور مد مقابل کے طور پر پیش کریں کہ وہ خلافت کے دعویٰ دار اور خواہش مند تھے اور اس کے لیے سازشیں کر رہے تھے اور اس کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا ہر اسلوب اختیار کر رہے تھے حالانکہ جب ہم اس شخص کی تاریخ کو دیکھتے ہیں اور ان کے منہج وطریق کا جائزہ لیتے ہیں تو اس سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ یہ ان چنندہ لوگوں میں سے ہیں جن کا مقصود دنیا نہ تھا بلکہ وہ دنیا پرستی سے پاک تھے۔ بیعت ثانیہ میں وہ نقباء میں سے تھے… سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ان نفوس قدسیہ میں سے تھے جنہوں نے بدر میں شرکت کی اور اللہ کے نزدیک اس کی شہادت دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بعد ان پر اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ پر بھروسہ کرتے تھے، جیسا کہ غزوہ خندق کے واقعہ سے معلوم ہوتاہے… سعد رضی اللہ عنہ کا مؤقف بالکل معروف ومشہور ہے، ایسے صحابی جن کا ماضی اسلام کی خدمت میں تابناک رہا ہو، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت حاصل رہی ہو، ان کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ سقیفہ کی میٹنگ میں جاہلی عصبیت کو اس لیے زندہ کریں کہ اختلاف وانتشار کے نتیجے میں منصب خلافت سے سرفراز ہوں۔ اسی طرح وہ بات بھی صحیح نہیں کہ جو بعض کتابوں میں مذکور ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بعد نہ تو وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز ادا کرتے تھے نہ مزدلفہ سے ان کے ساتھ کوچ کرتے تھے، یہ جھوٹ اور افتراء پردازی ہے صحیح روایات سے ثابت ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ (ص۲۵ / ۲۲۴)
اسی طرح علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بیعت کا مسئلہ ہے۔ معاندین نے اسے اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کی وفات تک حضرت علی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی۔ اس کتاب میں شواہد سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ علی اور زبیر رضی اللہ عنہما نے وفات نبوی کے دوسرے دن خلیفہ اوّل کی بیعت کی، پہلے دن چونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین میں مصروفیت رہی اس لیے دونوں اس دن بیعت نہ کر سکے۔ علی اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کے باہمی تعلقات خوشگوار تھے اور حضرت علی ہر موقع پر حضرت ابوبکر کے مشیر کے طور پر کام کرتے تھے، جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مرتدین سے لڑنے کے لیے بنفس نفیس محاذ پر جانے کے لیے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر