کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 23
الغرانیق العلی‘‘ کی بابت ہے۔ بعض علماء نے اس کے مضمرات کا اندازہ کیے بغیر اس سنی سنائی بات کو اپنی تصنیف کا حصہ بنا لیا اور اس طرح شعوری یا غیر شعوری طور پر انہوں نے اسلام دشمنوں کے ہر اول دستے کا کام کیا۔ آج سے نہیں صدیوں سے مقتدر علماء ان لغویات کی تردید میں اپنے علم وقلم کی بہترین صلاحیتیں صرف کرتے رہے ہیں، لیکن صلیبی اور صیہونی مستشرقین نے تحقیق وتاریخ کے نام پر اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ التحیۃ والتسلیم کو بدنام کرنے کے لیے ایسے ہی بے سروپا فسانہ واساطیر کو بنیاد بنا لیا، اب انہیں عام کرنے کے لیے قرطاس وقلم کو وقف کر دیا۔ سلمان رشدی کی کتاب ’’شیطانی آیات‘‘ (The Satanic Verses) اسی بے سروپا حکایت پر مبنی ہے۔ ہم مسلمانوں نے رشدی کے خلاف احتجاج کی صدا بلند کی جس نے ایک مسلمان گھرانے کا فرد ہوتے ہوئے بھی اپنے صلیبی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اسلام پر یہ وار کیا۔ ایران کے علامہ خمینی نے اس کے قتل کا فتویٰ صادر کیا لیکن تمام صلیبی طاقتیں آزادی اظہار کے نام پر اس کے دفاع پر صف بستہ ہو گئیں۔ اناجیل میں بھی متعدد ایسے مقامات ہیں جنہیں نشانِ تنقید و تضحیک بنایا جا سکتا ہے۔ رشدی نے شیطانی انجیل (The Satanic Gospel ) لکھنے کا حوصلہ نہیں کیاکیونکہ وہ صلیبیوں کا نمک پروردہ ہے اور انھی کے خوان نعمت کا جوٹھا کھاتا ہے اگر وہ ایسی جسارت کرتا تو اسے صلیبی دنیا تو کیا، دنیا کے کسی گوشہ میں پناہ نہیں مل سکتی تھی۔ خمینی صاحب نے رشدی کی موت کا فتویٰ جاری کیا لیکن خود ہمارے ہی مفسر اور تاریخ نگار دشمنوں کو بارود فراہم کر رہے ہیں تو پھر ان کی طرف سے آتش باری پر ہم کیا اعتراض کر سکتے ہیں؟ ظاہر ہے رشدی نے ’’غرانیق العلی‘‘ کی کہانی ہمارے ہی علمی ذخیرہ سے اڑائی تھی۔
صلیبی لوگ تاریخ کو مسخ کرنے اور یہودی صحف میں تحریف کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، ان کے مذہبی صحیفوں میں جو باتیں ان کے نئے عزائم ومقاصد میں حائل ہوتی تھیں یا جو عقائد انہیں اباحیت کی راہ سے روکتے تھے انہوں نے ان سب کو اناجیل محرفہ (Apocrypha ) کہہ کر مسترد کر دیا اور صرف وہی صحیفے مستند ومعتبر قرار پائے جو ان کی نئی تشریح وتفہیم اور تفسیر کے مطابق مرتب کیے گئے تھے۔
مسلمانوں کے صحیفۂ سماوی میں تحریف ممکن نہیں کیونکہ قرآن عظیم یہ ضمانت ربانی لے کر نازل ہوا ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر: ۹)
اسی ابدی ربانی ضمانت کے بعد کسی پہلو سے بھی اس کلام الٰہی میں ردوبدل نہیں کی جا سکتی۔ لیکن مسلمانوں نے تاریخ میں تحریف کرنے اور موضوع احادیث کا انبار لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ثابت کر دیا کہ اگر وہ قرآن مجید میں تحریف نہیں کر سکتے تو ضلالت وکج روی کے صحرائے بیکراں میں تدلیس وتلبیس کی زہر ناک فصلیں تو اگا سکتے ہیں جن سے تعصب کے وہ شجر زقوم برگ وبار لائیں جو امتوں کو ابدالآباد تک خون اگلواتے رہیں۔
ہمارے عالی مرتبت علماء نے احادیث کے ذخیروں کو کھنگال کر ان سے سارا رطب و یابس الگ کر دیا۔