کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 22
کے ساتھ انہیں تاریخ کے صفحات پر نقل کر دے۔ یہ معروضیت تاریخ نگاری کی اوّلین شرط ہے، ایک تاریخ نگار کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ آج وہ جو کچھ اور جیسا کچھ لکھ رہا ہے وہ آئندہ نسلوں تک پہنچے گا اور ان کی فکر ونظر کو متاثر کرے گا۔ غیر ذمہ داری یا بے شعوری سے لکھی گئی بعض باتیں اقوام کے درمیان نفرت وکشمکش کی بنیاد بن جاتی ہیں۔ برصغیر کی تاریخ ہی کو دیکھ لیجیے، طالع آزما مہم جو بادشاہوں نے کشورکشائی کی خاطر ہر طرف یلغار کی، مفتوح اقوام کی عبادت گاہوں کو برباد کیا اور اس طرح اسلامی تعلیمات کی صریح خلاف ورزی کی، ان کے درباری وقائع نگاروں نے خوشامد اور ظل سبحانی کی خوشنودی کے لیے ان کارروائیوں کو جہاد قرار دیا اور عبادت گاہوں کی مسماری کو فخر ومباہات کے لہجہ میں رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا اور ان سب کو تاریخ قرار دے کر صحف و اسفار میں نقل کر دیا۔ اس طرح انہوں نے اسلام پر اور پیروان اسلام کی آنے والی نسلوں پر ظلم کیا، حالانکہ اسلام نے کسی عبادت گاہ کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دی، مساجد، کلیسا، صومع اور خانقاہ جہاں بھی اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور اس کا ذکر کیا جاتا ہے ان کے تحفظ کی تلقین کی ہے: وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّـهِ كَثِيرًا (الحج: ۴۰) اسی لیے جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اسلامی لشکر کو کسی مہم پر روانہ کرتے تھے تو خاص طور سے تلقین فرماتے تھے کہ جو لوگ کلیساؤں میں محو عبادت ہوں انہیں پریشان نہ کرنا۔ ظاہر ہے کلیسا سے مراد غیر مسلموں کی ہر عبادت گاہ ہو گی۔ عربوں نے جب ہندوستان فتح کیا تو یہاں کے ہندوؤں کو اہل کتاب کا درجہ دیا اور انہیں وہ تمام حقوق ومراعات عطا کیں جو اسلام نے اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) کو عطا کی تھی، سندھ میں عرب اقتدار کے دوران میں کوئی مندر منہدم نہیں کیا گیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو اللہ اور اس کے رسول کی ضمانت وذمہ داری کے نام پر جو دائمی منشور عطا کیا تھا اس میں کلیسا، اس میں موجود تصویریں (مورتیاں)، دیگر علامات و نشانات، کلیسا کے منصب داروں (پادری وبشپ وغیرہ) سب کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی، ان کی عبادت گاہوں میں کسی جبری تغیر، اوقاف میں مداخلت یا ان کی اراضی و املاک پر تصرف کی صریحاً ممانعت کی گئی تھی۔ عربوں کے پاس یہ منشور تھا اس لیے وہ جہاں بھی گئے اسی منشور نبوی کو بنیاد بنا کر مفتوح غیر مسلموں کے حقوق کی ضمانت دی اور ان سے فراخ دلانہ سلوک کیا، بدقسمتی سے غیر عرب کشور کشاؤں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور صراط مستقیم سے بھٹک گئے۔ بہر کیف غیر ذمہ داری یا بے شعوری سے تاریخ نگاری میں ہمارے بعض علماء و مفسرین سے اس راہ میں المناک فروگزاشتیں ہوئیں، بعض مفسرین نے اسرائیلیات کو اپنی تفاسیر کا حصہ بنایا اور اکثر مسلمانوں نے ان تفاسیر کو پڑھ کر اسرائیلی داستانوں کو اسلامی تاریخ کا حصہ سمجھ لیا۔ ایک بے ہودہ اور بے سروپا حکایت ’’تلک