کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 21
امت کی اس تابناک تاریخ کا یہ باب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے شروع ہوتا ہے۔ بصیرت وتدبر، عزم واستقلال، وفاداری وفداکاری، ایثار و انفاق کا یہ مرقع خیر، مجسم اسلام کے مرد مومن کی سچی تصویر تھا، وہ ثانی اثنین فی الغار، وہ فدائے ذات پاک نبی ،وہ پروران رخ زیبائے مصطفوی، وہ اسلام کا پہلا خلیفہ راشد، ہر دور میں اہل حق اور متلاشیان راہِ حق وہدایت کے لیے نمونہ کامل ہے۔ اگر تاریخ کے عالی مرتبت افراد کی کوئی فہرست دیانت داری اور غیر جانب داری سے مرتب کی جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام اس میں سرفہرست ہوگا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اسلام کی تاریخ سے صرف ایک نام پیش کرو جو ہمہ جہت صفات عالیہ اور عزم وتدبر کا پیکر ہو تو ہم بلا جھجھک صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نام پیش کر سکتے ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خود ہی مسخ کیا ہے، سیاسی اقتدار کے نصب العین کو مذہبی عقیدہ کا رنگ دے دیا گیا، عرب وعجم کی کشمکش نے اسے نئی شدت اور سنگینی عطا کی، بنو امیہ اور بنوعباس کی ہوس اقتدار نے خون سے اس کی آبیاری کی، قبائلی عصبیت نے، جسے اسلام نے ختم کر دیا تھا پھر سر ابھارا اور جلد ہی اس شجرئہ خبیثہ نے سادہ لوح عوام کے دلوں میں اپنی جڑیں پیوست کر لیں اور وہ دین جو رحمت للعالمین کے ذریعہ رحمت ومرحمت، رافت ومروت، دوستی ویکجہتی کا پیغام لے کر آیا تھا اس میں مدح ومذمت اور لعنت و تبرا و کو جز و ایمان قرار دیا گیا اور امت کے وہ برگزیدہ افراد جو اس زمین پر قدسیوں کی مثال تھے، جن کی قربانیوں سے دین کا پرچم بلند ہوا، جنہیں ان کی زندگی میں ہی مغفرت کی بشارت دی گئی، ان پیکران سعادت کو خود غرضی، بے مہری اور بے کرداری اور حرص وآز کی تصویر بنا کر پیش کیا گیا، ان کی کردار کشی کے لیے حدیثیں وضع کی گئیں، قرآن مجید میں لفظی ومعنوی تحریف کی جسارت کی گئی اور ایک منصوبہ بند مہم کے ذریعہ سے ان لغویات کو مذہب و عقیدہ کانام دے کر بے شعور عوام الناس کو گمراہ کیا گیا۔
خلاف راشدہ کے بعد کا دور دیکھیے تو حیرت ہوتی ہے کہ چند روزہ دنیاوی اقتدار کے لیے کس طرح بعض لوگوں نے انسانیت کے اعلیٰ اصولوں کو پامال کیا اور یہ امت جسے قرآن نے خیر امت قرار دیا تھا، اسے اپنے اقتدار کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھا دیا۔ حجاج بن یوسف ہو یا ابراہیم سفاح، مامون عباسی ہو یا اس کے جانشین، ابن علقمی ہو یا اس کے ہم عقیدہ یا ہم قبیلہ ، سب نے امت کی تاریخ میں خوں چکاں ابواب کا اضافہ کرنے میں بھرپور حصہ لیا ہے۔
بد قسمتی یہ بھی ہے کہ ہمارے بعض نامور اسکالرز نے جو بزعم خویش اپنے آپ کو مؤرخ سمجھتے تھے شعوری یا غیر شعوری طور پر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی، حالات وواقعات کو جانب داری اور رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کیا۔ تاریخ کو اپنے سیاسی ومذہبی عقائد کی تبلیغ کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ حالانکہ ایک مؤرخ کا فرض یہ ہوتا ہے کہ وہ احوال وحوادث کا غیر جانبداری اور باریکی سے مطالعہ ومشاہدہ کرے اور پھر پوری دیانت داری