کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 182
ہے، سراسر باطل روایت ہے۔ کیونکہ اس کا راوی صاحب بدعت اور خواہش پرست ہے، ناقابل اعتماد، گیا گذرا اخباری ہے،[1] اور خاص کر اختلافی مسائل میں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ اس روایت سے متعلق فرماتے ہیں: اس کی سند جیسی ہے آپ دیکھ رہے ہیں،[2] یعنی انتہائی درجہ کی ضعیف ہے اور اس کا متن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے بالکل خلاف ہے۔ سمع و اطاعت کی جو بیعت کی تھی اور ان کے سلسلہ میں جو فضائل مروی ہیں اس کے منافی ہے۔[3] ۶۔ عمر اور حباب بن منذر رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف کی حقیقت: سقیفہ بنی ساعدہ کے اجتماع میں عمر اور حباب بن منذر رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف کی روایت کے سلسلہ میں راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی سے کبھی حباب بن منذر رضی اللہ عنہ کو ناراض نہیں کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حباب بن منذر رضی اللہ عنہ خود میری باتوں کا جواب دیتے تھے، میری ان کے ساتھ کوئی ایسی (اختلاف وناراضی کی) بات نہیں ہوئی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ایک مرتبہ میری ان سے کچھ باتیں ہو گئی تھیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے منع فرما دیا تھا۔ اسی وقت میں نے قسم کھا لی تھی کہ اب میں انھیں کوئی ایسی بات کبھی نہ کہوں گا جس سے ان کو تکلیف ہو۔[4] اسی طرح حباب بن منذر سے متعلق جو باتیں اس روایت میں بیان کی گئی ہیں وہ آپ کی حکمت اور حسن رائے کے خلاف ہیں، جس میں کہ آپ معروف تھے۔ آپ کا لقب ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ذوالرای (اچھی رائے والے) تھا۔[5]کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر و خیبر میں ان کی رائے کو قبول کیا تھا۔[6] رہا حباب رضی اللہ عنہ کا یہ قول: ’’ہم میں سے ایک امیر اور آپ لوگوں میں سے ایک امیر ہو‘‘ تو اس کی وضاحت خود انہوں نے فرمائی کہ اس سے مقصود یہ نہیں تھا کہ وہ امارت وقیادت کو چاہتے ہیں، فرماتے ہیں: واللہ مسئلہ خلافت میں ہم آپ سے مقابلہ نہیں کرتے لیکن ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں وہ لوگ اس پر فائز نہ ہوں، جن کے آباء و اخوان کو ہم نے قتل کیا ہے۔[7] مہاجرین نے ان کے قول کو قبول کیا، ان کے عذر کو صحیح جانا اور خود یہ لوگ بھی مشرکین کے خون میں شریک تھے۔
[1] میزان الاعتدال فی نقد الرجال الذہبی: ۳/۲۹۹۲، اس کا راوی لوط بن یحییٰ ابومخنف متروک ہے، اس کی روایت کا اعتبار اور اس پر اعتماد شیعہ کے علاوہ کوئی نہیں کرتا۔ ابن قمی کے قول کے مطابق یہ شیعوں کا بہت بڑا مورخ ہے۔ دیکھیے مرویات ابی مخنف فی تاریخ الطبری، للدکتور یحییٰ الیحیی: ۴۵۔۴۶۔ [2] سیر اعلام النبلاء: ۱/۲۷۷۔ [3] الانصار فی العصر الراشدی: ۱۰۲۔۱۰۳۔ [4] الانصار فی العصر الراشدی: ۱۰۰۔ [5] الاستیعاب: ۱/۳۱۶۔ [6] الانصار فی العصر الراشدی: ۱۰۰، بدر میں حباب رضی اللہ عنہ سے متعلق جو روایت مشہور ہے، امام ذہبی نے اس کو منکر قرار دیا ہے، دیکھیے تلخیص مستدرک: ۳/ ۱۲۶، ۱۲۷۔ (مترجم) [7] الانصار فی العصر الراشدی: ۱۰۰۔