کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 180
تذکرہ نہیں ملتا کہ وہاں کسی طرح کی مشکلات رونما ہوئی ہوں اور خلافت کے لیے جتھا بندی عمل میں آئی ہو، جیسا کہ بعض تاریخ نگاروں کا زعم ہے اسلامی اخوت ان کے مابین برابر قائم رہی بلکہ اس کے اندر اور تقویت پیدا ہوئی جیسا کہ نقل صحیح سے یہ ثابت ہوتا ہے۔ اور نقل صحیح سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ خلافت وحکومت کو اپنے قبضہ میں رکھنے کے لیے ابوبکر و عمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم کے مابین وفات نبوی کے بعد کوئی سازش اور منصوبہ بندی عمل میں آئی ہو[1] کیونکہ یہ نفوس اللہ تعالیٰ سے انتہائی ڈرنے والے اور تقویٰ شعار تھے اور اس طرح کی خسیس حرکتوں سے بالا تر تھے۔
بعض خواہش پرست اور بدعتی تاریخ نگاروں نے اس بات کی ناپاک کوشش کی ہے کہ وہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مہاجرین کے مخالف اور مدمقابل کی حیثیت سے پیش کریں، کہ وہ خلافت کے دعویدار اور خواہش مند تھے اور اس کے لیے وہ سازشیں کر رہے تھے، اور منصوبہ بندی میں لگ کر اس کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنے کا ہر اسلوب اختیار کر رہے تھے۔ حالانکہ جب اس شخص کی تاریخ کو دیکھتے ہیں اور ان کے منہج وطریق کار کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کی خدمات سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آشکارا ہو جاتی ہے کہ یہ ان چنندہ لوگوں میں سے تھے جن کا مقصود دنیا نہ تھا، بلکہ وہ دنیا پرستی سے پاک تھے۔ بیعت عقبہ ثانیہ میں یہ نقباء میں سے تھے، اس موقع پر قریش نے ان کا تعاقب کیا اور قیدی بنا کر ان کے دونوں ہاتھوں کو گلے سے باندھ کر مکہ لے آئے، جبیر بن مطعم کو جب پتہ چلا تو اس نے ان کو قید سے رہائی دلائی کیونکہ وہ مدینہ میں جب جاتا تو انھی کے یہاں رہتا تھا۔
سعد بن عبادہ ان نفوس قدسیہ میں سے ہیں جنہوں نے بدر میں شرکت کی[2] اور اللہ کے نزدیک بدری صحابہ کا مقام ومرتبہ حاصل کیا۔ ان کا گھرانہ جودوسخا میں معروف تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شہادت دی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بعد ان پر اور سعد بن معاذ پر اعتماد کرتے تھے، جیسا کہ غزوہ خندق کے واقعہ سے واضح ہوتا ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے عیینہ بن حصن فزاری کو مدینہ کی پیداوار کا ایک تہائی دینے کے سلسلہ میں مشورہ لیا تھا اور اس وقت ان دونوں نے جو جواب دیا تھا وہ ان کے ایمان کی گہرائی اور کمال فدائیت وقربانی پر واضح دلیل ہے۔[3]
[1] استخلاف ابی بکر ، جمال عبدالہادی ، ص ۵۰۔ ۵۱۔۵۳۔
[2] الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب: ۲/۵۹۴۔
[3] الخلافۃ والخلفاء الراشدون، سالم بھنساوی: ۴۸ ۔ ان دونوں نے بیک زبان عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اگر اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے تب تو بلا چون و چرا تسلیم ہے اور اگر محض آپ ہماری خاطر ایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں، جب ہم لوگ اور یہ لوگ دونوں شرک و بت پرستی پر تھے تب تو یہ لوگ میزبانی اور خریدو فروخت کے سوا کسی اور صورت سے ایک دانے کی طمع نہیں کر سکتے تھے، بھلا اب جبکہ اللہ نے ہمیں ہدایت اسلام سے سرفراز فرمایا ہے اور آپ کے ذریعے سے عزت بخشی ہے ہم انہیں اپنا مال دیں گے؟ واللہ ہم تو انہیں اپنی تلواریں دیں گے۔ الرحیق المختوم: ۴۲۱۔ (مترجم)