کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 17
کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے
مصنف: ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی
پبلیشر: الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان
ترجمہ: شمیم احمد خلییل السلفی
عرضِ ناشر
خلفائے راشدین اور ان کے دور خلافت کی خصوصیات و ہمہ جہت مثالی کردار کا مطالعہ کرنے سے پہلے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ دور دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتداد تھا۔ اسلام اور مسلمانوں کی اب تک کی تاریخ میں دور نبوت کے بعد خلافت راشدہ کا دور ہر اعتبار سے سب سے ممتاز اور تابناک رہا ہے، کیونکہ اس کی باگ ڈور ان ہستیوں کے ہاتھ میں تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارکہ سے انہیں جنت کی بشارت اور فضل و تقویٰ کا اعلیٰ مقام مل چکا تھا۔ جس طرح انہوں نے قرآن و سنت کے نقل کرنے میں غایت درجہ احتیاط و اتقان سے کام لیا تھا اسی طرح انہوں نے جہاں بینی اور جہاں بانی میں بھی شمع نبوت سے روشنی حاصل کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے فکری، سماجی، سیاسی، اداری، اقتصادی اور جنگی و فتوحاتی ہر میدان میں انسانیت و روحانیت اور امن و آشتی کے لیے ایسے عدیم النظیر نقوش چھوڑے جن سے آج کی ترقی یافتہ کہی جانے والی دنیا بھی درست راہ لینے پر مجبور ہے۔ چنانچہ خلافت راشدہ کے ایک اہم پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
’’یقینی طور سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ ان (ابوبکر رضی اللہ عنہ )کی خلافت کو ثابت کرنا دین کی بنیادی باتوں میں سے ہے جب تک کہ اس کو یقین کے ساتھ مان نہیں لیں گے شریعت کے مسائل میں سے کوئی مسئلہ یقینی نہیں ہو سکتا۔‘‘
مزید بیان کرتے ہوئے ، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے چار پہلواس طرح بیان کرتے ہیں:
اول: امت میں مرتبہ علیا پانا۔ صدیقیت اسی سے مراد ہے۔
دوم: اوّل روز سے سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی اعانت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینا۔
سوم: نبوت کے شروع کیے ہوئے کاموں کو اِتمام تک پہنچانا۔
چہارم: آخرت میں علو مرتبہ۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سلسلہ خلافت کی پہلی کڑی ہیں۔ آپ نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی جو خطبہ دیا تھا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اس کا ہر ہر جملہ موعظت کی کھلی کتاب ہے۔
آپ کے فضائل کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہیں۔ مشرف باسلام ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت تک پروانہ وار شمع رسالت پر قربان و نثار رہے۔ جنگی معرکوں کے ساتھ ساتھ ملکی انتظام بھی دیکھتے تھے۔