کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 167
یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رونے پر بڑا تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بندے کو اختیار دیے جانے کی خبر دے رہے ہیں اور یہ رو رہے ہیں۔ (لیکن چند روز بعد واضح ہوا کہ) جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر اپنی رفاقت اور مال میں سب سے زیادہ صاحب احسان ابوبکر ہیں اور اگر میں اپنے رب کے علاوہ کسی اور کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن ان کے ساتھ اسلام کی اخوت ومحبت کا تعلق ہے۔ مسجد میں کوئی دروازہ باقی نہ چھوڑا جائے بلکہ اسے لازماً بند کر دیا جائے سوائے ابوبکر کے دروازہ کے۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے کو آپ کے مرض الموت میں اس کے ذکر کے قرینے سے پہچان لیا تھا کہ آپ اپنے آپ کو مراد لے رہے ہیں، اس لیے رونے لگے۔[2] جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں مزید شدت آگئی اور نماز کا وقت آگیا، بلال نے اذان دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سے کہو نماز پڑھائیں۔ عرض کیا گیا: ابوبکر رقیق القلب ہیں جب آپ کے مقام پر کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مؤقف پر قائم رہے، لوگ اپنی بات کہتے رہے، تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا: ’’تم سب یوسف والیاں[3] ہو، ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔[4] (ایک روز) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز (ظہر) پڑھانا شروع کی، ادھر نبی
[1] البخاری: فضائل الصحابۃ ۳۶۵۴،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ وفات سے پانچ روز قبل بروز چہار شنبہ کا ہے، جس وقت آپ کی بیماری میں مزید شدت آگئی تھی۔ دیکھیے (الرحیق المختوم: ۱۲۴) [2] فتح الباری: ۷/۱۶۔ [3] یوسف والیاں کہنے کی وجہ یہ تھی کہ جس طرح جو عورتیں عزیز مصر کی بیوی کو ملامت کر رہی تھیں حالانکہ در پردہ خود یوسف پر فریفتہ تھیں یعنی زبان سے کچھ کہہ رہی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی بات تھی، یہی معاملہ یہاں بھی تھا۔ بظاہر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رقیق القلب ہونے کا ذکر تھا، لیکن دل میں یہ بات تھی کہ اگر خدانخواستہ اس مرض میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نحوست اور بدشگونی کا خیال لوگوں کے دل میں جاگزیں ہو جائے گا۔ (البخاری: المغازی ۴۴۴۵) [4] البخاری: الاذان ۷۱۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی شدت کے باوجود وفات سے چار دن پہلے جمعرات تک نمازیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے، اس روز بھی مغرب کی نماز آپ ہی نے پڑھائی تھی اور اس میں سورئہ المرسلات کی تلاوت فرمائی۔ (البخاری: المغازی ۸۳، ۴۴۲۹)۔ لیکن عشاء کے وقت مرض کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ مسجد میں جانے کی طاقت نہ رہی، آپ پر بار بار بے ہوشی طاری ہو رہی تھی، بالآخر آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے۔ ہفتہ یا یک شنبہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں قدرے تخفیف محسوس کی، چنانچہ دو آدمیوں کے سہارے چل کر مسجد میں تشریف لائے، اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز شروع کر چکے تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے الرحیق المختوم: ۶۲۴۔ ۶۲۸ (مترجم)