کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 166
بھی اعتراض کر چکے ہیں۔ اللہ کی قسم وہ امارت کا مستحق تھا اور وہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور زید کا فرزند اسامہ ان کے بعد میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔[1] لوگ جہاد کی تیاری میں تھے اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا آغاز ہوا۔[2] آپ کے بیمار پڑنے اور وفات کے درمیان مختلف واقعات پیش آئے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: شہدائے احد کی زیارت اور ان کے لیے دعائے مغفرت۔[3] حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا میں بیماری کے ایام گذارنے کے لیے ازواج مطہرات سے اجازت طلبی اور بیماری میں شدت۔[4] جزیرئہ عرب سے مشرکین کو نکال باہر کرنے اور وفود کے ساتھ نوازش کرنے کی وصیت۔[5] قبر کو سجدہ گاہ بنانے کی ممانعت۔[6] اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کی وصیت۔[7] نماز اور ماتحتوں (غلاموں) کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت۔[8] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ اب مبشرات نبوت میں سے صرف اچھے خواب باقی ہیں۔[9] انصار کے ساتھ خیر کی وصیت۔[10] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ((ان اللہ خَیَّرَ عبدًا بین الدنیا وبین ما عند اللّٰہ ، فاختار ذلک العبد ما عند اللہ۔)) ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے دنیا لے لے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا۔‘‘
[1] البخاری: فضائل اصحاب النبی: ۴۴۶۹، ۴/ ۲۱۳۔ [2] ۲۹ صفر ۱۱ ہجری دو بروز شنبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ میں بقیع تشریف لے گئے، واپسی پر راستے ہی میں درد سر شروع ہو گیا اور حرارت اتنی تیز ہو گئی کہ سر پر بندھی ہوئی پٹی کے اوپر سے محسوس کی جانے لگی۔ یہ آپ کے مرض الموت کا آغاز تھا۔ (الرحیق المختوم: ۶۶۴) مترجم [3] البخاری: الجنائز، باب الصلاۃ علی الشہید ۱۳۴۴۔ [4] صحیح السیرۃ النبویۃ: ۶۹۵۔ [5] البخاری: الجہاد والسیر ۳۰۵۳۔ [6] البخاری: الصلاۃ: ۴۳۵، صحیح السیرۃ النبویۃ: ۷۱۲۔ [7] مسلم: الجن ۲۸۸۔ [8] ابن ماجہ: الوصایا: ۲۶۹۷، ۲/۹۰۰،۹۰۱۔ [9] مسلم: الصلاۃ: ۱/۳۴۸۔ [10] البخاری: مناقب الانصار ۳۷۹۹۔