کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 138
’’تم ایسا ازراہ تکبر نہیں کرتے ہو۔‘‘ ۵۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حلال کی تلاش: قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا، جب وہ اپنی آمدنی لے کر آتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کو اس وقت تک نہیں کھاتے تھے جب تک اس سلسلہ میں دریافت نہ کر لیتے۔ اگر وہ ایسی چیز ہوتی جو آپ کو پسندیدہ ہوتی تو کھا لیتے اور اگر ناپسند اشیاء میں سے ہوتی تو نہ کھاتے۔ ایک روز بھول گئے اور سوال کیے بغیر کھا لیا، پھر جب خیال آیا تو اس سے پوچھا، جب اس نے خبر دی کہ یہ ان کی ناپسندیدہ چیزوں سے تھی تو اپنا ہاتھ حلق میں ڈال کر جو کچھ کھایا تھا سب قے کر دیا، اندر کچھ نہ رہنے دیا۔[1] ابوبکر رضی اللہ عنہ کے تقویٰ وپرہیزگاری کی یہ واضح مثال ہے۔ آپ اپنے کھانے پینے میں حلال کو تلاش کرتے اور متشابہات سے اجتناب کرتے، آپ کی یہ عادت طیبہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ تقویٰ کے انتہائی بلند مقام پر فائز تھے، اور دین میں حلال کھانے، پینے اور پہننے کی اہمیت اور دعا کی قبولیت میں اس کی تاثیر پوشیدہ نہیں۔[2]جیسا کہ اس حدیث میں آیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گرد آلود پراگندہ بال والے کے ذکر میں فرمایا ہے: ((یمدُّ یدیہ الی السماء : یا رب! یا رب! ومطعمہ حرام ومشربہ حرام وملبسہ حرام وغُذِّیَ بالحرام فانّٰی یُستجابُ لذلک۔))[3] ’’وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب یا رب کہتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اس کی پرورش حرام مال سے ہوئی تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہو؟‘‘ ۶۔ مجھے صلح میں شریک کرو جس طرح جنگ میں شریک کیا تھا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اپنی بیٹی عائشہ رضی اللہ عنہا کی آواز بلند ہوتے ہوئے سنی، جب ان سے قریب ہوئے تو پکڑا اور طمانچہ رسید کرنا چاہا اور فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی آواز بلند کرتی ہو؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو روکنے لگے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نکل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: دیکھا ان سے میں نے تمہیں کس طرح بچا لیا۔ کچھ دنوں کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، دیکھا کہ دونوں میں مصالحت ہو چکی ہے تو آپ نے عرض کیا: مجھے صلح میں شریک کرو جس طرح جنگ میں شریک کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے شریک کر لیا۔[4]
[1] الزہد للامام احمد: ۱۱۰، بحوالہ التاریخ الاسلامی للحمیدی : ۱۹/۱۳۔ [2] التاریخ الاسلامی للحمیدی: ۱۹/۱۳۔ [3] مسلم: ۱۰۱۵، ۲/۷۰۳۔ [4] ابوداود: ۴۹۹۹، علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف ابی داؤد میں اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ سیرۃ الصدیق، مجدی السید: ۱۳۶۔