کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 136
فنحاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا: دیکھیے آپ کے ساتھی نے کیا کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: ابوبکر تم نے ایسا کیوں کیا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے انتہائی سنگین بات کہی ہے۔ اس کا زعم ہے کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور یہ اغنیاء ہیں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو اللہ واسطے مجھے غصہ آگیا اور میں نے اس کے چہرہ پر مار دیا۔ لیکن فنحاص اس سے انکاری ہو گیا اور کہا: میں نے نہیں کہا۔ اللہ تعالیٰ نے فنحاص کی تردید اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی: لَّقَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘسَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ ﴿١٨١﴾ (آل عمران:۱۸۱) ’’اللہ نے ان لوگوں کی بات یقینا سن لی ہے جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم لوگ مالدار ہیں، ہم ان کی باتیں لکھ رہے ہیں اور ان کا انبیاء کو ناحق قتل کرنا بھی لکھ رہے ہیں اور ہم ان سے کہیں گے کہ آگ کا عذاب چکھو۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کو جو غصہ آیا اس سلسلے میں ارشاد ربانی ہوا : لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ﴿١٨٦﴾ (آل عمران: ۱۸۶) [1] ’’تمہیں یقینا تمہارے مالوں اور جانوں میں آزمایا جائے گا اور تم یقینا ان لوگوں کی جانب سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکین کی جانب سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے اور اگر تم صبر کرو گے اور اللہ سے ڈرتے رہو گے تو بے شک یہ ہمت وعزیمت کا کام ہے۔‘‘ ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسرار کی حفاظت: عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ جو بدر میں شریک تھے، ان کے انتقال کے بعد حفصہ بیوہ ہو گئی۔ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: ’’اگر چاہو تو حفصہ سے تمہاری شادی کر دوں؟‘‘ انہوں نے کہا: سوچتا ہوں۔ پھر مجھ سے ملے اور کہا: میری رائے یہ قرار پائی ہے کہ ابھی شادی نہ کروں۔ پھر میںابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا، ان سے شادی کی پیشکش کی، وہ خاموش رہے۔ ان کی اس خاموشی کی وجہ سے
[1] تفسیر القرطبی: ۴/۲۹۵۔