کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 133
خطبہ دیا، لوگوں کے لیے مناسک حج؛ وقوف عرفہ وافاضہ، رمی جمرات اور منیٰ سے کوچ کرنے کے احکام و مسائل بیان کیے اور علی رضی اللہ عنہ ہر موقع پر آپ کے پیچھے پیچھے رہتے اور لوگوں کو سورۂ براء ۃ کی ابتدائی آیات پڑھ کر سناتے اور لوگوں میں ان چار باتوں کا اعلان کرتے:
۱۔ جنت میں صرف مومن داخل ہوں گے۔
۲۔ آئندہ سے کوئی ننگے طواف نہ کرے۔
۳۔ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ ہو وہ اپنی مدت تک باقی رہے گا۔
۴۔ اس سال کے بعد مشرکین کو حج کی اجازت نہ ہو گی۔[1]
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ اس عظیم مہم میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تعاون کے لیے مقرر فرمایا۔[2]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے سامنے عہد شکنی کے اعلان کے لیے علی رضی اللہ عنہ کا انتخاب اس لیے فرمایا تھا کیونکہ لوگوں کا عام معمول تھا اور ان کے عرف میں یہی تھا کہ عہدوپیمان کو قائم کرنے اور اس کو توڑنے کے لیے یا تو قبیلے کا سردار ہو یا اس کے خاندان کا کوئی فرد ہو، اور یہ عرف چونکہ اسلام کے منافی نہیں تھااس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رعایت کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے روانہ فرمایا۔ یہ اصل سبب ہے جس کی وجہ سے علی رضی اللہ عنہ کو سورئہ براء ۃ کی ابتدائی آیات کی تبلیغ کے لیے روانہ فرمایا نہ کہ جو روافض کا زعم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مقابلہ میں خلافت کے زیادہ مستحق تھے۔ شیخ محمد ابو شہبہ اس پر تعلیق چڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پتہ نہیں ان لوگوں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس قول کو کیسے نظر انداز کر دیا ’’تم امیر بن کر آئے ہو یا مامور؟‘‘[3] اور پھر مامور امیر سے بڑھ کر خلافت کا مستحق کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘[4]
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی امارت میں یہ حج حجۃ الوداع[5] کا مقدمہ تھا اور اس حج میں یہ اعلان کیا گیا کہ بت پرستی کا دور ختم ہوا اور توحید کے نئے دور کا آغاز ہوا، اب لوگوں پر لازم ہے کہ اللہ کی شریعت کی پابندی کریں۔ قبائل عرب میں اس عام اعلان کے بعد ان قبائل کو یقین ہو گیا کہ اب یہ قطعی فیصلہ ہے اور اصنام پرستی کا خاتمہ ہو چکا، لہٰذا اپنے اسلام میں داخلے اور توحید کا اعلان کرتے ہوئے اپنے وفود کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجنے لگے۔ [6]
[1] صحیح السیرۃ النبویۃ: ۶۲۵۔
[2] السیرۃ النبویۃ لابی شہبۃ: ۲/۵۳۷۔
[3] صحیح السیرۃ النبویۃ: ۵۲۴۔
[4] السیرۃ النبویۃ لابی شہبہ: ۲/۵۴۰۔
[5] السیرۃ النبویۃ لابی شہبہ: ۲/۵۴۰۔
[6] قراء ۃ سیاسیۃ للسیرۃ النبویۃ، قلعجی: ۲۸۳۔