کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 132
مال تھا، میں نے سمجھا کہ آج میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا۔ چنانچہ میں نے اپنا نصف مال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: عمر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اسی کے مثل۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا مال لا کر آپ کی خدمت میں حاضر کر دیا۔ آپ نے ان سے پوچھا: اپنے بچوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ فرمایا: ان کے لیے اللہ و رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ میں نے کہا: میں کبھی کسی چیز میں آپ سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔[1] عمر رضی اللہ عنہ نے رشک ومسابقت کا جو معاملہ کیا وہ مباح تھا، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی حالت ان سے بہتر وافضل تھی کیونکہ ان کے اندر منافست ومقابلہ نہ تھا اور دوسرے کی طرف ان کی نگاہ نہ تھی۔[2] ب: صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۹ہجری میں بحیثیت امیر حج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں معاشرہ کی تربیت اور سلطنت کی تعمیر عقائدی، اقتصادی، اجتماعی، سیاسی، عسکری اور تعبدی ہر اعتبار سے جاری تھی اور گذشتہ سالوں میں فریضہ حج ادا نہ کیا جا سکا تھا۔ فتح کے بعد ۸ہجری میں اگرچہ عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو حج کی ذمہ داری سونپی گئی تھی لیکن مسلمانوں اور مشرکین کے حج میں کوئی امتیاز قائم نہ کیا جا سکا تھا۔[3] چنانچہ جب ۹ ہجری میں حج کا زمانہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ فرمایا لیکن آپ نے یہ کہہ کر ارادہ ترک کر دیا کہ ’’ننگے مشرکین خانہ کعبہ کا طواف کریں گے، مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس حالت میں حج کروں۔‘‘ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۹ہجری میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج مقرر کر کے روانہ فرمایا۔ آپ رضی اللہ عنہ حجاج کو لے کر مکہ روانہ ہوئے۔ اتنے میں سورئہ برائۃ کا نزول ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور حکم دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جا ملو۔ علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ’’عضباء‘‘ پر سوار ہو کر نکلے اور ذوالحلیفہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جا ملے۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو دیکھا تو دریافت کیا: امیر بن کر آئے ہو یا مامور؟ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: مامور بن کر آیا ہوں۔ پھر یہ قافلہ حج روانہ ہوا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو حج کرایا اور اس سال حج ذوالحجہ میں ہوا جیسا کہ صحیح روایات اس پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ ذوالقعدہ میں جیسا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یوم ترویہ(۸ ذی الحجہ) سے قبل اور یوم عرفہ (۹ ذی الحجہ)، یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ)، یوم النفرالاوّل (۱۲ ذی الحجہ) کو
[1] ابوداود: الزکاۃ ۲/ ۳۱۲۔ ۳۱۳ (۱۶۷۸) علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔ [2] مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ۱/۷۲۔۷۳ [3] دراسات فی عہد النبوۃ، عماد الدین خلیل ۲۲۲۔