کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 131
کو مجھ سے قریب کرو‘‘ دونوں نے قبر میں ان کو اتار دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو قبر میں لٹا دیا، فرمایا: اے اللہ! میں ان سے راضی ہوں، تو بھی ان سے راضی ہو جا۔
عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: کاش اس قبر والا میں ہوتا۔[1]
ابوبکر رضی اللہ عنہ جب میّت کو لحد میں داخل کرتے تو کہتے: ((بسم اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم وبالیقین وبالبعث بعد الموت۔)) [2]
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کے لیے دعا کا مطالبہ:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ہم سخت گرمی میں تبوک روانہ ہوئے، راستہ میں ایک جگہ ہم نے پڑاؤ ڈالا، ہمیں شدت کی پیاس لگی، ہمیں گمان ہونے لگا کہ ہماری موت قریب آگئی ہے۔ انسان پانی کی تلاش میں نکلتا اور واپس نہ آتا۔ یہاں تک کہ ہمیں گمان ہونے لگتا کہ اس کی وفات ہو گئی۔ پیاس کی شدت کی حد یہ ہو گئی کہ انسان اپنے اونٹ کو ذبح کرتا اور اس کی اوجھ کو نچوڑ کر پیتا اور باقی کو اپنے کلیجے پر مل لیتا۔
ان حالات میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! یقینا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعا میں خیر کا عادی بنایا ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہو؟
کہا: ہاں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے دونوں ہاتھ اٹھائے اور برابر دعا کرتے رہے یہاں تک کہ بدلی اٹھی اور تیز بارش ہوئی، لوگوں نے اپنے پانی کے برتن بھر لیے، پھر ہم دیکھنے نکلے تو لشکر سے باہر بارش کا اثر نہ پایا۔[3]
۳۔ غزوۂ تبوک میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عطیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر بقدر استطاعت عطیات دینے پر ابھارا کیونکہ سفر لمبا تھا، دشمن کی تعداد زیادہ تھی اور عطیات دینے والوں کے لیے اللہ کی جانب سے اجر عظیم دیے جانے کا وعدہ کیا۔ ہر ایک نے اپنی بساط کے مطابق عطیات پیش کیے۔ اس غزوہ میں عثمان رضی اللہ عنہ نے سب سے زیادہ عطیہ پیش کیا۔[4] اورعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنا نصف مال عطیہ کر دیا اور ان کو یہ خیال پیدا ہوا کہ آج وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جائیں گے۔
وہ خود بیان فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عطیات پیش کرنے کا حکم فرمایا، اس وقت میرے پاس
[1] صحیح السیرۃ النبویۃ : ۵۹۸۔
[2] مصنف عبدالرزاق: ۳/۴۹۷، بحوالہ موسوعۃ فقہ الصدیق: ۲۲۲۔
[3] ابن حبان: الجہاد، باب غزوۃ تبوک : ۱۷۰۷ موارد۔
[4] السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الاصلیۃ: ۶۱۵۔