کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 130
میں حاضر ہوتے اور آپ سے دین کے بارے میں سوال کرتے اور قرآن پڑھتے، یہاں تک کہ دین کی بصیرت اور علم حاصل کر لیا اور جب کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتا ہوا پاتے تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچتے اور اپنی قوم پر اس کو ظاہر نہ کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی یہ ادا بہت بھائی اور آپ ان سے محبت کرنے لگے۔[1]
جس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شخص کا پتہ چلا جس نے آپ کے لخت جگر عبداللہ کو تیر مارا تھا اس وقت آپ نے جو بات کہی وہ آپ کے ایمان کی عظمت پر واضح ثبوت ہے۔ امام قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ طائف میں عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کو تیر لگا اور وہی زخم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چالیس روز بعد تازہ ہو گیا اور اسی میں وفات پا گئے۔ ثقیف کا وفد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ تیر آپ کے پاس محفوظ تھا۔ آپ نے اس تیر کو ان کے سامنے پیش کیا اور پوچھا: کیا تم میں سے کوئی اس تیر کو جانتا ہے؟ تو بنو عجلان میں سے سعید بن عبید نے کہا: میں نے ہی اس کو تیز کیا اور پر لگایا تھا اور میں نے ہی اس کو کھینچ کر مارا تھا؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی وہ تیر ہے جس سے عبداللہ کا قتل ہوا ہے۔ اللہ کے لیے ہر طرح کی حمدوشکر ہے کہ اس نے تمہارے ہاتھ سے اس کو شہادت کا شرف بخشا اور تمہیں اس کے ہاتھ سے ذلیل نہ کیا۔ یقینا اللہ کی رحمت تم دونوں کے لیے وسیع ہے۔[2]
غزوۂ تبوک، امارت حج اور حجۃ الوداع میں
الف: غزوۂ تبوک میں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک میں تیس ہزار (۳۰۰۰۰) کا عظیم لشکر لے کر رومیوں سے قتال کرنے کے لیے شام کی طرف روانہ ہوئے اور جب آپ کی قیادت میں مسلمان ثنیۃ الوداع کے پاس جمع ہو گئے تو امراء وقائدین کو منتخب فرمایا اور ان کے لیے پرچم اور جھنڈے متعین کیے اور سب سے بڑا پرچم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو عطا کیا۔[3]
اس غزوہ کے اندر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مختلف مواقف سامنے آئے:
۱۔ عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کی وفات پر آپ کا موقف:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں غزوئہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، رات کو اٹھا تو دیکھتا ہوں کہ لشکر کی ایک جانب سے شعلہ نظر آرہا ہے۔ میں اس کی طرف بڑھاتاکہ دیکھوں کیا ہے؟ دیکھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ہیں۔ عبداللہ ذوالبجادین مزنی کا انتقال ہو چکا ہے۔ قبر کھودی جا چکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں ہیں اور ابوبکر وعمر میّت کو قبر میں اتار رہے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں: ’’اپنے بھائی
[1] تاریخ الاسلام للذہبی: المغازی ۶۷۰۔
[2] خطب ابی بکر الصدیق: محمد احمد عاشور ۱۱۸ لیکن یہ روایت منقطع ہے۔
[3] صفۃ الصفوۃ: ۱/۲۴۳۔