کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 127
مشرک اس مسلمان کو دھوکا دے کر پیچھے سے قتل کرنا چاہتا ہے۔ میں جلدی سے اس مشرک کی طرف بڑھا جو مسلمان کو دھوکے سے قتل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے مجھے مارنا چاہا، لیکن میں نے اس کے ہاتھ پر وار کیا اور اس کا ہاتھ کٹ گیا، اس نے مجھے سختی سے بھینچ لیا، میں ڈر گیا کہ مر نہ جاؤں پھر اس نے چھوڑ دیا، میں نے اس کو دھکیل کر قتل کر دیا۔ ابتدا میں مسلمان کفار کے حملے کی تاب نہ لا کر بھاگ کھڑے ہوئے، میں بھی انھی بھاگنے والوں میں تھا۔
اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ ملے، میں نے ان سے پوچھا: یہ لوگوں کو کیا ہو گیا؟
آپ نے کہا: اللہ کا یہی حکم تھا، قضا وقدر میں یہی مقرر تھا۔
پھر لوگوں کو ہوش آیا اور واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ اللہ نے فتح ونصرت سے ہمکنار کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے مقتول کے قتل پر دلیل اور ثبوت فراہم کر دے تو اس مقتول کا مال واسباب اس کے لیے ہے۔
میں اپنے مقتول پر ثبوت فراہم کرنے کے لیے نکلا لیکن کسی کو گواہ نہ پایا، مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔ پھر خیال آیا اور میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاملہ بیان کیا۔
وہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا: اس مذکور مقتول کا اسلحہ میرے پاس ہے۔ آپ اسے مجھے دلا دیجیے۔
ابوبکر بول اٹھے: ہرگز نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ہو نہیں سکتا کہ اللہ کے اس شیر کو چھوڑ کر جو اللہ و رسول کی طرف سے لڑتا ہے، ایک کمزور ترین قریشی کو دے دیں۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے میرے حوالہ کر دیا، میں نے اس سے ایک باغ خریدا، یہ پہلی جائداد تھی جس کا میں بحالت اسلام مالک ہوا۔[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اس سلسلہ میں زجر و توبیخ اور قسم کھانے، فتویٰ دینے میں جلدی کرنا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کی تصدیق کرنا اور آپ کی موافقت میں فیصلہ صادر کرنا خصوصی شرف ومنزلت کی دلیل ہے، جس میں کوئی آپ کا شریک نہیں۔[2]
اور اس واقعہ کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ اپنے مسلمان بھائی کی سلامتی وحفاظت کے انتہائی حریص ہوئے، اس کو بچانے کی خاطر بڑی مشقتیں برداشت کر کے کافر کو قتل کیا۔ اسی طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس موقف میں اس بات کی واضح دلالت ہے کہ آپ حق کو حق کہنے اور حق کی طرف سے دفاع کرنے کے انتہائی حریص تھے۔ اور اسی طرح اس میں آپ کے ایمان راسخ، یقین کامل اور اسلامی اخوت کے احترام وقدر شناسی کی واضح دلیل ہے اور آپ کے لیے یہ عظیم ترین منزلت وشرف کی بات ہے۔[3]
[1] البخاری: المغازی ۵/۱۱۹، ۴۳۲۲۔
[2] الریاض النَّضرۃ فی مناقب العشرۃ: ابوجعفر محب الدین ۱۸۵۔
[3] التاریخ الاسلامی للحمیدی : ۸/۲۶۔