کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 124
بات کا خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کیے کی اطلاع نہ مل جائے۔ چنانچہ ابوسفیان مکہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے محمد! عہد کو مزید مضبوط کر لیجیے اور مدت میں اضافہ کر دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اسی غرض سے آئے ہو؟ کیا تمہاری طرف سے کوئی بات ہوئی ہے؟ اس نے کہا: معاذ اللہ ہم تو اپنے حدیبیہ والے عہد و صلح پر قائم ہیں، اس میں کسی طرح کا تغیر وتبدل نہیں کر سکتے۔ پھر اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ملاقات کرنے کے لیے آپ کے پاس سے رخصت ہوا۔[1] ۱۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ابوسفیان: ابوسفیان نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تجدید عہد اور مدت میں اضافہ کا مطالبہ کیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صاف فرما دیا: میری پناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں ہے۔ اللہ کی قسم اگر میں دیکھوں کہ چیونٹیاں تم سے قتال کر رہی ہیں تو میں تمہارے خلاف ان کی مدد کروں۔ یہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ذہانت اور سیاسی مہارت ظاہر ہوتی ہے اور پھر آپ کا قوی ایمان نمایاں ہوتا ہے جس پر آپ قائم تھے، ابوسفیان کے سامنے بغیر کسی خوف کے اعلان کرتے ہیں کہ وہ ہر ممکن طریقہ سے قریش کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہیں، وہ اگر چیونٹیوں کو قریش کے خلاف لڑتے ہوئے پائیں تو ان کی مدد کریں گے۔[2] ۲۔ عائشہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کے درمیان: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے۔ وہ گندم چھان رہی تھیں اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے رکھا تھا کہ راز کسی پر افشاں نہ ہونے پائے کہ کدھر چڑھائی کرنے کا ارادہ ہے… آپ نے ان سے کہا: بیٹی کس کے لیے یہ توشہ کی تیاری ہو رہی ہے؟ وہ خاموش رہیں۔ پھر آپ نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چڑھائی کرنا چاہتے ہیں؟ وہ خاموش رہیں۔ پھر پوچھا: کیا روم پر چڑھائی کا ارادہ ہے؟ پھر بھی خاموشی اختیار کی۔ آپ نے پھر سوال کیا: کیا اہل نجد پر چڑھائی کرنے کا ارادہ ہے؟ وہ خاموش رہیں۔
[1] التاریخ السیاسی والعسکری: د: علی معطی، ۳۶۵، الطبری: ۳/۴۳۔ [2] تاریخ الدعوۃ الاسلامیۃ: ۱۴۵۔