کتاب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 123
لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو منع کر دیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی مہارت کی وجہ ہی سے ان کو تمہارے اوپر امیر مقرر فرمایا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ ٹھنڈے پڑ گئے۔[1]
فتح مکہ، حنین وطائف میں
الف: فتح مکہ ۸ ہجری میں
صلح حدیبیہ کے بعد فتح مکہ کا سبب وہ تھا جسے محمد بن اسحق نے بیان کیا ہے۔ زہری عن عروہ کے طریق سے مسور بن مخرمہ اور مروان بن الحکم رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے۔ صلح حدیبیہ کی ایک دفعہ یہ تھی کہ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہو جائے اور جو قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہو جائے۔ چنانچہ بنو خزاعہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدوپیمان میں داخل ہو گئے اور بنو بکر کے لوگ قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہو گئے اور یہ کیفیت سترہ (۱۷) یا اٹھارہ (۱۸)ماہ تھی، پھر بنو بکر نے مکہ سے قرب ’’وتیر‘‘ کے چشمہ پر بنو خزاعہ پر راتوں رات حملہ کر دیا۔ قریش نے سوچا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کیا خبر اور رات کے وقت ہمیں کون دیکھتا ہے چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت میں بنو خزاعہ کے خلاف بنو بکر کی سواریوں اور اسلحہ سے بھرپور مدد کی اور ان کے ساتھ مل کر قتال کیا چنانچہ عمرو بن سالم خزاعی ان حالات میں مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امداد طلب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
اللہم انی ناشدٌ محمدا
حلف ابینا وابیک الاتلدا
’’اے اللہ! میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ان کے عہد اور ان کے والد کے قدیم عہد[2] کی دہائی دے رہا ہوں۔‘‘
فانصر ہداک اللّٰہ نصرا اعتدا
وادع عباد اللّٰہ یاتوا مددا
’’اللہ آپ کو ہدایت دے، آپ پر زور مدد کیجیے اور اللہ کے بندوں کو پکاریے وہ مدد کو آئیں گے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو بن سالم تیری مدد کی گئی۔[3]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی تیاری شروع کر دی اور اس کو پردئہ راز میں رکھا اور اللہ سے دعا کی کہ اللہ قریش کو اس سے بے خبر رکھے یہاں تک کہ مسلم فوج اچانک مکہ کو فتح کرے۔ ادھر قریش کو اس
[1] الحاکم: ۳/۴۲ اور اس کو صحیح الاسناد قرار دیا اور امام ذہبی نے صحیح کہا ہے۔ کتاب المغازی: ۳/۴۲۔
[2] یہاں اشارہ اس عہد کی طرف ہے جو بنو خزاعہ اور بنو ہاشم کے درمیان عبدالمطلب کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔ (مترجم)
[3] السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: ۴/۴۴۔