کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 82
ہو گیا۔ چونکہ اگر لوگ آرام طلب اور راحت پسند ہوتے ہیں۔ اس لیے اُنہوں نے علم کی طرف توجہ مبذول نہ کی اور نہ علومِ ادلہ کو سیکھا بلکہ حُسنِ ظن کی بناء پر تقلید کو اختیار کر لیا۔ علماء نے بھی، جو کہ علم و دین کی انتہائی منزلوں کو طے کر چکے تھے، عوام اور حکام کے ڈر سے اپنے مرتبہ، اجتہاد یا مرتبہ اتباع پر فائز ہونے کا اظہار نہ کیا۔ بلکہ مصلحتِ عامہ کا خیال رکھتے ہوئے شافعی، مالکی اور حنفی وغیرہ کہلاتے رہے۔ لیکن اس کے باوجود اعتقاد و عمل کے اعتبار سے وہ لوگ مقلدِ جامد نہ تھے اور یہ بات خود ان علماء کی کتابوں ہی سے ثابت ہے۔ چنانچہ ہم نے ’’التاج المکلل‘‘[1]میں علماء مجتہدین میں سے ایک عظیم جماعت کا نام بنام ذکر کر کے بتا دیا ہے کہ وہ کسی کے مقلد نہ تھے، بلکہ فقہاء کے نام سے مشہور اور مذاہبِ اربعہ میں سے کسی ایک کی طرف منسوب تھے۔ اور جو لوگ خالص محدث اور عامل بالحدیث تھے وہ اس قدر بکثرت تھے کہ ان کی صحیح تعداد کا خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو علم نہیں، کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کے ہم عصر محدثین کرام کے زمانہ میں ایک ایک مجلسِ حدیث میں ستر ستر (70) ہزار آدمی سماعِ حدیث کے لیے شرکت کیا کرتے تھے، اور ان میں سے کوئی شخص بھی تقلیدِ شخصی کا قائل نہیں ہوا کرتا تھا۔ البتہ عامی اور مقلدِ جاہل جو قرآن و حدیث کے دلائل نہ جاننے کی بناء پر کتاب و سنت پر براہِ راست عمل نہیں کر سکتا۔ اور کتبِ فقہ سے بھی منتفع نہیں ہو سکتا، اس کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار
[1] کتاب کا پورا نام ’’التاج المكلل من جواهر مآثر الطراز الآخر والاوّل‘‘ ہے۔ پہلا ایڈیشن 1880ء میں طبع ہوا تھا۔ جبکہ دوسرا ایڈیشن 1963ء میں عبدالحکیم شرف الدین کی تصحیح و تعلیق کے ساتھ نہایت سلیقہ کے ساتھ بمبئی سے زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے۔ م، خ، س۔