کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 81
اور عقلی، عرفی اور شرعی ہر اعتبار سے لوگوں پر واضح ہے۔ اس کا انکار امرِ بدیہی کا انکار ہے۔ مقتدی کی فضیلت کا اندازہ مقتدا کی فضیلت سے لگایا جاتا ہے۔ مثلاً امتِ مسلمہ کا مقام و مرتبہ صرف اسی وجہ سے بلند و بالا ہے کہ اس امت کا رسول دیگر تمام امتوں کے رسولوں کی نسبت اکرم و افضل ہے تو بھلا رسول کی اتباع کرنے والا افرادِ امت کی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کم مرتبہ ہو سکتا ہے
فرق ست میانِ آنکہ یارش دربر
باآنکہ دو چشمِ انتظارش بردر
عوام میں (علماء میں نہیں) ایمان تو عصر نبوت ہی سے تقلیدی چلا آ رہا ہے [1] لیکن عملِ تقلیدی چوتھی صدی ہجری میں تھوڑا تھوڑا شروع ہوا اور پھر چھٹی صدی ہجری کے بعد تو اہل علم کی لغت اور جہلاء کی کثرت کی وجہ سے تمام دنیا میں عام
[1] آیت مبارکہ ﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے لیے بھی علم کا ہونا ضروری ہے۔ اور تقلیدی ایمان ناقابلِ قبول ہے۔ چنانچہ امام کرمانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ:
((مذھب اکثر المتکلمین أن ایمان المقلد فی اصول الدین غیر صحیح))
’’اکثر متکلمین کا مذہب یہ ہے کہ اصول دین میں مقلد کا ایمان درست نہیں ہے۔‘‘
اِسی طرح اُنہوں نے امام محی السنۃ رحمہ اللہ کا قول بھی ذکر فرمایا ہے کہ:
((یجب علیٰ کل مکلف معرفۃ علم الاصول ولا یسمع فیہ التقلید لظھور دلائلہ))
’’دلائل کے واضح ہونے کے پیش نظر ہر مکلف پر اصولِ دین کا علم حاصل کرنا واجب ہے اور اِس سلسلہ میں تقلید قطعاً ناقابلِ التفات ہے۔‘‘
(شرح البخاری للکرمانی، جلد 2 ص 30)