کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 55
نفع بخش ثابت ہو گا۔ کیونکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے کہ:
((اِنَّ الْعَبْدَ لَيَمُوْتُ وَالِدَاهُ اَوْ اَحَدُهُمَا وَاِنَّهٗ لَهُمَا لَعَاقٌّ فَلَا يَزَالُ يَدْعُوْ لَهُمَا وَيَسْتَغْفِرُ لَهُمَا حَتّٰى يَكْتُبَهٗ اللهُ بَارًّا)) [1]
’’جس آدمی کے والدین یا ان میں سے کوئی فوت ہو جائے اور وہ ان کا نافرمان ہو لیکن ان کے لیے دعا اور استغفار کرتا رہے تو اللہ اسے نیکوکار لکھ دیتا ہے۔‘‘
میری والدہ ماجدہ علیہا الرحمۃ کا انتقال بھوپال میں آ کر ہوا۔ تاریخ وفات بروز پیر بوقت یکپاس شب 24 محرم 1285ھ ہے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس دن اُنہوں نے مغرب کی نماز لیٹ کر کے پڑھی اور حالتِ مرض میں سورہ اخلاص پڑھتی رہی تھیں۔ زندگی بھر صرف اس دن عشاء کی نماز وقتِ اجل کے آ جانے کے باعث فوت ہوئی۔ غسل اور تکفین کے بعد جب میں نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا تو ان کے چہرہ کا رنگ زرد تھا۔ اہل علم کی صراحت کے مطابق یہ حُسنِ خاتمہ کی علامت ہے۔ آپ کی قبر میرے خُسر مدار المہام صاحب بہادر کے باغ کے متصل ہے۔
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ وَلَهَا مَغْفِرَةً ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً لَا تُغَادِرُ ذَنْبًا
تحصیلِ علم:
میں نے علم کو طلبِ دنیا یا حصولِ عزت و جاہ کے لیے حاصل نہیں کیا، بلکہ نجات اور ایمان کا سبب سمجھتے ہوئے حاصل کیا ہے۔ اور پھر کسی کی تحریک یا تشدید کے بغیر محض اپنے شوقِ خاطر سے سیکھا ہے۔ بچپن میں معلّم سے
[1] رواہ البیہقی فی شعب الایمان