کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 54
کہنے لگا: اے رسولِ خدا! ((هَلْ بَقِيَ مِنْ بِرِّ أَبَوَىَّ شَىْءٌ أَبَرُّهُمَا بِهِ بَعْدَ مَوْتِهِمَا قَالَ ‏ ‏ نَعَمِ الصَّلاَةُ عَلَيْهِمَا وَالاِسْتِغْفَارُ لَهُمَا وَإِنْفَاذُ عَهْدِهِمَا مِنْ بَعْدِهِمَا وَصِلَةُ الرَّحِمِ الَّتِي لاَ تُوصَلُ إِلاَّ بِهِمَا وَإِكْرَامُ صَدِيقِهِمَا)) [1] ’’کیا کوئی نیکی باقی ہے جو میں اپنے والدین کی وفات کے بعد کر سکوں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لیے دعا، استغفار، ان کے بعد ان کے وعدہ کا ایفاء، وہ صلہ رحمی جو صرف ان کی وجہ سے ہی ہو سکتی ہو اور ان کے دوستوں کی عزت۔‘‘ میں نماز میں اپنے مرحوم والدین کے لیے یہ دعا کیا کرتا ہوں: ((اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ وَالِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ تَوَالَدَا وَارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِيْ صَغِيْراً وَلِجَمِيْعِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ الْاَحْيَآءِ مِنْهُمْ وَالْاَمْوَاتِ اِنَّكَ مُجِيْبُ الدَّعْوَاتِ)) ’’اے اللہ! مجھے، میرے والدین اور ان کی تمام اولاد کو معاف فرما، اور ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی۔ نیز تمام مومن اور مسلمان مردوں اور عورتوں، زندوں اور مُردوں کو بھی معاف فرما۔ تو ہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔‘‘ اس دعا میں والدین کے علاوہ بھائی بہن وغیرہ بھی آ جاتے ہیں۔ میں نے والدہ مرحومہ کی طرف سے ایک سرائے اور کنواں بنوایا تھا۔ اب ان کی طرف سے بھوپال شہر میں ایک مسجد بھی تعمیر کرا دی ہے۔ اُمید ہے کہ انہیں اس کا اجر ان شاء اللہ ضرور ملے گا۔ اور اگر لاعلمی میں یا بھول چوک سے والدہ کی کوئی نافرمانی ہوئی ہو تو یہ اس کا کفارہ بن جائے گا۔ اور میرا دعا اور استغفار کرنا اس سلسلہ میں ان شاءاللہ
[1] رواہ ابو داؤد و ابن ماجہ