کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 53
حنفیہ کے نزدیک میت کی طرف سے کسی اجنبی کو حجِ بدل کرانا درست ہے۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ فتویٰ حدیث کے مطابق قریبی رشتہ دار کی طرف سے کسی قریبی رشتہ دار کو حج کرنا چاہیے۔ میت کی طرف سے کسی غریب غیر رشتہ دار و اجنبی کو نہیں کرنا چاہیے، اور یہی راجح ہے۔ بہرحال نفقات اور دیگر نیکیوں کا اجر انہیں ان شاءاللہ ضرور ملے گا۔
والدین کے لیے دعائے مغفرت:
جب سے میں سنِ شعور کو پہنچا ہوں، والدین کے لیے نماز میں تشہد اور درود کے بعد دعا کیا کرتا ہوں۔ اگرچہ میں کیا اور میری دعا کیا۔ تاہم حکمِ شریعت کی بجا آوری ضروری ہے۔ اور والدین کی محبت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ)) [1]
’’انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو تین کے سوا اس کے باقی سب اعمال منقطع ہو جاتے ہیں۔ اول صدقہ جاریہ، دوم علم نافع اور سوم نیک بچہ جو اس کے لیے دعا کرتا ہو۔‘‘
حضرت ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھے کہ بنو سلمہ میں سے ایک آدمی آیا اور
[1] رواہ مسلم