کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 51
میں نے عرض کیا: پھر کس سے؟ فرمایا: اپنے باپ سے اور پھر جو جتنا زیادہ قریبی ہو اس سے۔‘‘ معلوم ہوا کہ باپ کی نسبت ماں نیکی اور حسنِ سلوک کی سہ چند زیادہ مستحق ہے۔ اور جن احادیث میں صلہ رحمی کے فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان کے اعتبار سے والدین کے ساتھ صلہ رحمی دیگر تمام لوگوں کی نسبت مقدم ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع روایت میں ہے کہ: ’’ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ له فِي رِزْقِهِ، وأَنْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ, فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ‘‘ [1] ’’جو شخص پسند کرے کہ اس کا رزق فراخ اور اس کی عمر زیادہ ہو، اسے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے اس قدر بکثرت مال عطا فرمایا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ میں نے حتیٰ الامکان اپنی والدہ ماجدہ کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اور میں ان کے سامنے اس طرح رہا ہوں جیسے کوئی کنیز یا غلام اپنے آقا کے سامنے رہتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ: ’’مجھ سے ایک بڑے گناہ کا ارتکاب ہو گیا ہے کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تیری والدہ موجود ہے؟ اس نے جواب دیا: جی نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تیری خالہ ہے؟
[1] متفق علیہ