کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 46
لا کر جامع مسجد میں ٹھہرتے تھے اور میرے گھر بھی آتے جاتے تھے۔ ہم دونوں بھائیوں سے بہت محبت کرتے تھے۔ اور والد علیہ الرحمۃ کی قبر پر بھی جایا کرتے تھے۔ آج کل مولانا صاحب کی شخصیت قناعت اور زہد و تقویٰ کے اعتبار سے یادگارِ روزگار ہے۔ میرے بڑے فرزند نور الحسن خاں کو ان سے بہت زیادہ اُنس اور عقیدت ہے۔
پھر کانپور سے قاضی کلو [1] ساکن چھپرامو مجھے تعلیم کا شوق دلا کر دہلی لے گئے اور میں تقریباً دو برس وہاں رہا۔ ان دنوں مولانا بشیر الدین قنوجی [2] بن ناظر کریم الدین وہاں تشریف فرما تھے۔ اُنہوں نے دو تین روز مجھے اپنے ہاں مہمان رکھا۔ پھر مفتی محمد صدر الدین خاں صاحب رحمہ اللہ [3] آ کر مجھے لے گئے۔ اور نواب مصطفیٰ خاں مرحوم رحمہ اللہ [4]کے مکان میں مجھے ٹھہرا دیا۔ یہ مکان چتلی قبر کے متصل ہی تھا۔ مفتی صاحب سے میں نے سبق لینا شروع کر دیا۔ اور علومِ آلیہ کی کتابیں آپ سے پڑھیں۔ دہلی میں میں نے مولانا نوازش علی واعظ، [5] مولانا قطب الدین مرحوم کے شاگرد خواجہ ضیاء الدین واعظ،[6] مولانا عبدالخالق، [7] مولانا حفیظ اللہ واعظ، [8] مولانا عبدالکریم، مولانا محبوب
[1] سہ سہ
[2] 1234ھ 1266ھ
[3] 1204ھ 1285ھ
[4] 1221ھ 1284ھ
[5] سہ سہ
[6] سہ سہ
[7] سہ 1261ھ
[8] سہ 1235ھ