کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 43
امت کے بعض افراد میں یہ مرض بھی پایا جاتا ہے کہ وہ سید تو نہیں ہوتے۔ لیکن لوگوں سے طلبِ دنیا یا حصولِ صدقہ و خیرات کے لیے وہ اپنے آپ کو سید ظاہر کرتے ہیں۔ حالانکہ غیر باپ کی طرف انتساب حرام ہے۔ صحیح حدیث میں اس کذب بیانی پر لعنت آئی ہے۔ اور فرض صدقات تو تمام بنی ہاشم پر قطعاً حرام ہیں۔ یہاں تک کہ ہاشمی بھی کسی دوسرے ہاشمی کو فرض صدقہ نہیں دے سکتا۔ بلکہ سادات کی لونڈیاں اور غلاموں کے لیے بھی صدقہ کا مال لینا درست نہیں۔ عافانا الله تعاليٰ عن ذالك ابتدائی حالات: والد مرحوم کی وفات کے بعد اعزہ و اقارب میں کوئی بھی ایسا نہ تھا جو میری پرورش کرتا۔ ہم دو بھائی اور تین بہنیں تھے۔ سب نے مادرِ مہربان کی آغوش میں تربیت پائی۔ آمدنی کا بھی بظاہر کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ محض اپنے خزانہ غیب سے رزق عنایت فرماتا رہا۔ والد مرحوم کے مرید بھی اگرچہ بکثرت تھے، جن کی اولاد ابھی تک باقی ہے۔ لیکن ان میں سے بھی کوئی ہمارا کفیل نہیں تھا۔ محض اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کے زیرِ سایہ پروان چڑھے ہیں۔ والد علیہ الرحمۃ کے بعد والدہ علیہا الرحمۃ نے ایک معلّم کا انتظام کر دیا تھا۔ جس سے ہم نے قرآن مجید اور گلستان دبوستان وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ برادرِ اکبر سید احمد حسن مجھ سے دو برس بڑے تھے۔ اور بڑے ذہین تھے، اُنہوں نے جلد فارسی سیکھ لی اور عربی پڑھنی شروع کر دی۔ گھر میں والد علیہ الرحمۃ کا کتب خانہ موجود تھا۔ ان کے خادم شیخ حسینی جب کتابوں کو دھوپ میں ڈالتے تو ہم محض دل لگی کے لیے ایک ایک کتاب کھول کر جگہ جگہ سے پڑھتے۔ کوئی مقام