کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 38
ہم مثل قرار دیا ہے۔ اور یہ ثقل اسی وقت معتبر ہو گا۔ جب کہ یہ دونوں ترازو کے پلڑوں میں ایک دوسرے کے ہم وزن ہوں۔ تو جو لوگ نسلِ نبوت میں ہو کر کتاب و سنت پر عمل پیرا نہیں بلکہ شیعہ، خوارج اور روافض کی طرح بدعت و ضلالت میں سرگرداں ہیں، وہ ان فضائل کے ہرگز مصداق نہیں ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے مخاطب ہو کر ان کے بیٹے کے بارے میں فرمایا تھا:
﴿ إِنَّهُۥ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُۥ عَمَلٌ غَيْرُ صَـٰلِحٍ ﴾ [1]
’’بےشک وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ بےشک وہ ناشائستہ افعال کا حامل ہے۔‘‘
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
پسرِ نوح بابداں بنشست خاندانِ نبوتش گُم شد
سگِ اصحابِ کہف روزے چند پئے نیکاں گرفت مردم شد
اور دوم اس لیے کہ قرآن مجید میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے حق میں فرمایا گیا کہ تم میں سے اگر کوئی برا کام کرے تو اسے دوگنا عذاب ہو گا۔ اور یہ اس لیے کہ تعزیر بقدر کرامت ہوتی ہے۔ اگر سید سُنی کبائر کا ارتکاب کرے تو وہ دوگنے عذاب کا مستحق ہو گا۔ اور پھر اگر عالم ہو کر اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے تو وہ اور زیادہ مستحق عقاب ہو گا۔ غرضیکہ سید اور ذریت نبی سے ہونا کوئی آسان بات نہیں۔ کیونکہ اگر عمل ٹھیک نہ ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہایت ذلت و خجالت ہو گی۔ ایک سید کو اس نسبِ مبارک کا اسی وقت نفع ہو سکتا ہے جب کہ وہ ہر صورت میں خواہ عالم ہو خواہ جاہل، کتاب و سنت
[1] ہود: 46