کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 37
صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ اور حسب و نسب کا ایک عظیم سلسلہ ہے۔ جب وہ آلِ رسول ہیں تو وہ سادات جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے زمانہ سے تا ظہورِ مہدی دنیا میں گزر چکے ہیں یا گزریں گے یا فی الحال موجود ہیں، قلت وسائط کے باعث بالاولیٰ اہل بیت میں داخل ہیں۔ بشرطیکہ ان کا اعتقاد و عمل قرآن مجید کے مطابق ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((رَبَّنَا ٱغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَٰنِنَا ٱلَّذِينَ سَبَقُونَا بِٱلْإِيمَـٰنِ وَلَا تَجْعَلْ فِى قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ ءَامَنُوا۟)) [1] ’’اے ہمارے پروردگار! ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیے کینہ نہ پیدا ہونے دے۔‘‘ تو اس سے معلوم ہوا کہ جو اپنے دل میں سابقہ مومنوں کے لیے کینہ رکھتا ہو اور ان کے لیے دعا نہ کرتا ہو بلکہ بددعا کرتا ہو جیسے روافض و خوارج کرتے ہیں، تو وہ مومن نہیں ہے بلکہ جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر غیظ و غضب آئے۔ اس کے لیے کفر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ﴿ لِيَغِيظَ بِهِمُ ٱلْكُفَّارَ ۗ﴾ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اپنی رضا مندی کا اظہار فرمایا ہے۔ ﴿ رَّضِىَ ٱللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ ۚ﴾ اب جو کوئی اِن سے ناراض ہو، وہ مخالفِ خدا ہے۔ یہ قید ہم نے دو وجہ سے ذکر کی ہے۔ اول تو اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کو ثقلِ قرآن کے
[1] الحشر: 10