کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 36
أهل بيتي، ولن يتفرَّقَا حتى يرِدَا عليَّ الحوضَ، فانظروا كيف تَخلُفوني فيهما)) [1] ’’میں تم میں وہ کچھ چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر انہیں مضبوطی سے تھام لو گے تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ ایک کتاب اللہ ہے جو اللہ کی آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ایک رسی ہے اور دوسری میری اولاد ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوں گے۔ حتیٰ کہ مجھے حوض کوثر پر آ ملیں گے۔ سو خیال رکھو کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حج کے موقع پر عرفہ کے دن قصواء اونٹنی پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((يا أيُّها الناس، إني تركتُ فيكم ما إنْ أخذتُم به لن تضلُّوا: كتاب الله، وعِترتي أهْلَ بَيتي)) [2] ’’لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر مضبوطی سے اسے تھامے رکھو گے تو گمراہ نہ ہو گے۔ اور وہ کتاب اللہ ہے، اور میرے اہل بیت میری اولاد ہیں۔‘‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل بیت کے یہ مناقب حسنین، فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ مخصوص ہیں یا ان کی اولاد کو بھی شامل ہیں۔ جمہور کے نزدیک وہ فضائل جو خاص اُن کے نام پر آئے ہیں مثلاً ’’حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔‘‘ وہ تو متجاوز نہیں لیکن وہ الفاظ جو بصیغہ عموم آئے ہیں وہ متجاوز ہیں۔ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قیامت تک کی اولاد کو شامل ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مہدی علیہ السلام کو اہل بیت میں سے قرار دیا ہے۔ حالانکہ آنحضرت
[1] رواہ الترمذی [2] رواہ الترمذی