کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 29
راجو شہید بن سید جلال ثالث بن حامد کبیر بن ناصر الدین محمود بن جلال الدین بخاری معروف بمخدوم جہانیاں جہاں گشت بن احمد کبیر بن جلال اعظم گل سرخ بن علی موید بن جعفر بن احمد بن محمد بن عبداللہ بن علی اشقر بن جعفر زکی بن علی نقی بن محمد تقی بن علی رضا بن موسیٰ کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن حسین سبط بن فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘ گویا میرے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین تینتیس (33) نفوس کا واسطہ ہے۔ اور ان میں سے آٹھ ائمہ اہل بیت ہیں، جن کا شمار ائمہ اثناء عشر میں ہوتا ہے۔ پھر جعفر زکی سے لے کر جناب مخدوم جہانیاں بلکہ جلال رابع تک غالباً تمام اولیاء و صلحاء تھے۔ اور سید تاج الدین سے لے کر جد امجد علی بن لطف اللہ تک تمام اہل دولت ہوئے ہیں۔ میرے دادا جو سید اولاد علی خاں کے نام سے مشہور ہیں، انہیں ریاست حیدر آباد دکن سے نواب انور جنگ بہادر کا خطاب ملا تھا۔ اور وہ پانچ لاکھ روپیہ سالانہ کا علاقہ اور ایک ہزار سوار و پیادہ رکھتے تھے۔ میرے نانا مفتی محمد عوض ساکن بانس بریلی عالم، عارف باللہ، صحیح النسب قریشی اور خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے۔ ان کا اپنی جگہ مضبوط نسب نامہ ہے۔ آصف الدولہ والی اودھ ان کو نذر رکھلاتے تھے۔ میرے والد سید اولاد حسن رحمہ اللہ نے شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ قدس سرہما سے علم حاصل کیا۔ شاہ عبدالقادر صاحبِ موضح القرآن کو دیکھا اور شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خلیفہ حضرت سید احمد رحمہ اللہ ساکن رائے بریلی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ عالم باعمل تھے۔ کلکتہ سے لاہور اور شمال سے دکن تک کے اکثر علماء و امراء آپ سے واقف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے نصائح میں نہایت اثر