کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 23
امام شعرانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ سے علوم و معارف کو سلب نہیں کرتا بلکہ وہ چیز جو مسلوب ہو جاتی ہے حال ہے۔ کیونکہ اس کا ایک حال سے دوسرے حال کی طرف انتقال بہت جلد ہوا کرتا ہے۔
ونعوذبالله من الحدر بعد الكدر
بہرحال تحدیثِ نعمت میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ نعمت طویل عمر تک بندہ پر مکررسہ گرر ہوتی رہے بلکہ اتنا ہی کافی ہے کہ بندہ اس سے منتفع ہوا ہو، اگرچہ عمر بھر میں صرف ایک لحظہ کے لیے ہی ہوا ہو۔ امام شعرانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’فمن تخلق بخلق ولو لحظة صار من اهل ذلك الخلق عليٰ كل حال فاذا قال اعطاني الله كذا و كذا فقد صدق‘‘ [1]
’’جس کو کوئی نعمت نصیب ہوئی، خواہ ایک لحظہ کے لیے ہوئی ہو وہ ہر حال میں اس نعمت کے اعتبار سے منعم علیہ لوگوں میں شمار ہوتا ہے، اس لیے جب وہ یہ کہے کہ اللہ نے مجھے یہ کچھ دیا تو اس نے سچ کہا۔‘‘
آدمی جب اپنے کمالات کو یاد کرتا ہے تو اس کے دل سے بہت سا شکر صادر ہوتا ہے اور جب اپنے نقائص کو یاد کرتا ہے تو وہ قلیل الشکر ہوتا ہے۔ اس لیے اصل بات یہی ہے کہ محاسن ہر وقت سامنے رہیں۔ اور نقائص صرف اس وجہ سے مدنظر رہنے چاہئیں تاکہ انسان اپنے نفس ہی پر اتراتا نہ رہے۔
میرا مقصد بھی اپنے اخلاق کے ذکر سے شکرِ الٰہی کا اعلان ہے۔ فخر وغیرہ ہرگز نہیں اور اگر کہیں اپنے متعلق کچھ مدح ہو تو وہ اصلاً مقصود نہیں۔ اس لیے کہ وہ نہ مطابقت ہے نہ تضمن۔ بلکہ لازم ہے، اور لازمِ مذہب علماء اصول کے راجح قول کے مطابق
[1] لطائف المنن للشعرانی