کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 22
کرنے کا کون سا وقت ہے؟ خود اثبات کا مجھے علم نہیں۔
’’يمحو الله ما يشاء و يثبت و عنده ام الكتاب‘‘ [1]
میں نے جو یہ چند کلمات لکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر حسنِ ظن کے باعث لکھے ہیں کہ اس نے مجھے جو یہ مال و کمال عنایت فرمایا ہے۔ وہ اہل کرم کی طرح مجھ سے سلب نہیں کرے گا۔ جبکہ وہ سب سے بڑا صاحب کرم ہے۔ بلکہ میرا خاتمہ بخیر کرے گا۔ اگرچہ میں خسف کے لائق ہوں اور میرے حسنِ ظن کی وجہ خدا کا وہ ارشاد ہے جو ایک حدیث قدسی میں آیا ہے:
’’میں اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہوں جیسا وہ میرے بارے میں گمان کرتا ہے۔‘‘ حدیث شریف میں آیا ہے کہ:
’’ایک شخص ساری عمر اہل نار کے سے عمل کرتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر کتابِ ازل سبقت کرتی ہے اور مرنے سے پہلے وہ اہل جنت جیسا کوئی کام کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے وبالعکس۔‘‘ [2]
ہر چند کہ تکلیفِ شرعی کے ابتداءِ وجود سے آج تک میری دانست کے مطابق میرا کوئی ایسا عمل نہیں جس کو میں لائقِ قبول سمجھوں۔ لیکن اللہ کی رحمت سے نااُمیدی کفر ہے۔ میں اللہ کا بندہ ہوں، اگرچہ کبائر میں آگندہ ہوں اور اپنے گناہوں سے شرمندہ ہوں، لیکن اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت سے ہوں۔
گر نرفتم طریقِ سنت تو
ہتم از عاصیانِ اُمت تو
اِس لیے اِس کی رحمت عامہ سے مایوس نہیں ہوتا ہوں
نا امید از رحمت شیطان بود
[1] الرعد: 39
[2] متفق علیہ