کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 21
اِس موضوع پر شیخ عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ کی ’’منن کبریٰ‘‘ ایک مشہور و مبسوط کتاب ہے۔ جس میں آپ نے بہت سے خود نوشت سوانح حیات لکھنے والے اہل علم کا ذکر کیا ہے۔ اِس رسالے میں انہی کی اقتداء کی گئی ہے۔ فبهداهم اقتده۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ انما ذكرت مناقبي اقتدآء بالسلف الصالح وتحدثا بنعمة الله لا افتخارا علي الاقران ولا طلبا للدنيا ومناصبها وجاهها واي قدر للدنيا حتي يطلب تحصيلها بما فيه ذهاب الدين واللعنة والطرد عن حضرة الله تعاليٰ وقد ظهر شيي ومضي اطيب عمري وعيشي ودني رحيلي (انتهي حاصله)‘‘ [1]
’’میں نے سلف صالح کی اقتداء اور تحدیث نعمت کے پیش نظر اپنے فضائل ذکر کئے ہیں۔ اِس کے ہم عصروں پر افتخار، طلب دنیا یا حُبِ جاہ و منصب مقصود نہیں۔ دنیا کی قیمت ہی کیا ہے کہ اسے طلب کیا جائے۔ جبکہ اس میں دین کا نقصان، خدا کی پھٹکار اور اللہ سے دوری ہے اور پھر خصوصاً جبکہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں، عمر کا خوشگوار حصہ بسر ہو چکا ہے۔ اور کوچ کرنے کا وقت قریب آ چکا ہے۔‘‘
میں بھی بقول علامہ سیوطی رحمہ اللہ یہی کہتا ہوں کہ میرا مقصود انعامات و احسانات کے ذکر سے ہم عصروں پر فخر نہیں بلکہ نعمتِ الٰہی کے شکر کا اظہار میرے پیش نظر ہے۔ طلب دنیا میرے لیے تحصیلِ حاصل ہے، منصب اور جاہِ دنیا میرے کسی ذاتی و اضافی استحقاق کے بغیر اللہ تعالیٰ نے مجھے میرے حوصلہ سے بھی زیادہ بخشا ہے، عمر کی بھی پچپن (55) بہاریں گزر چکی ہیں۔ شباب گیا، بڑھاپا آیا، بال سفید ہو گئے، دانت گر گئے، ناتوانی کا ہجوم ہے اور سفرِ آخرت کا زمانہ قریب آ گیا ہے۔ یہ جھوٹ بولنے اور فخر
[1] التحدث بالنعمة