کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 20
متصف پائے، اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بقدر استطاعت واجب ہے، اور توقع ہے کہ اگر وہ شکر بجا لائے تو اللہ تعالیٰ اپنی نوازشات میں اضافہ فرما دے گا۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:
﴿ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ ﴿٧﴾﴾[1]
’’البتہ اگر تم شکر کرو گے تو میں یقیناً تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو بلاشبہ میرا عذاب سخت ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ جس طرح شکر سے نعمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، اسی طرح کفرانِ نعمت سے عذاب کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے بغیر میرے استحقاق کے مجھ پر بے شمار نوازشات فرمائیں اور مجھے اخلاقِ حسنہ سے متصف فرمایا۔ اس لیے مجھ پر فرض ہے کہ میں ہمیشہ اس کا شکر بجا لاتا رہوں۔ زبان سے شکر اسی وقت تک ادا کیا جا سکتا ہے جب تک انسان بقیدِ حیات ہو، لیکن جو شکر کتابی صورت میں لکھ کر کیا جائے اس کا اثر باقی رہتا ہے اور کتاب شاکر کی وفات کے بعد بھی گویا اس کے نائب کی حیثیت سے شکر ادا کرتی رہتی ہے۔
’’ فيكون كالنائب في العلم والعمل وكأن ذلك الشاكر لم يمت‘‘
’’یعنی شکرگزار اگرچہ فوت ہو جاتا ہے تاہم وہ کتاب علم و عمل میں اِس کے قائم مقام رہتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ ہم عصر لوگ جب میرے علم و عمل سے آگاہ ہوں گے تو ان میں سے خدا کی توفیق جن کے شاملِ حال ہو گی۔ میری طرح کتبِ شریعت کے حفظ کی اور اخلاقِ حسنہ کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ دین وہی ہے جو قرآن و حدیث کے سنہری حروف میں لکھا ہوا ہے۔ اسی وجہ سے سلف صالحین میں سے ایک جماعت نے تحدیثِ نعمت کے طور پر اپنے حالات خود سُپردِ قلم فرمائے ہیں۔ مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور ان کے تلمیذِ رشید علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ۔
[1] ابراہیم: 7