کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 19
اور حدیث میں آیا ہے: ((فَلْيَقُلْ اَحْسِبُهٗ كَذَا اَوْ اَظُنُّهٗ كَذَا وَلَا يُزَّكِّيْ عَلَي اللّٰهِ اَحَدًا هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰي)) [1] ’’پس انسان کو دوسرے کے بارے میں یہ کہنا چاہیے کہ میں اسے ایسا خیال یا گمان کرتا ہوں اور اسے اللہ کے بارے میں کسی کی (یقینی) صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے۔ وہ خود ہی زیادہ جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو جس کام کے لیے بنایا ہے خواہ وہ خیر ہو یا شر، وہ اس کے لیے آسان ہو جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ((فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ)) [2] قرآن مجید میں بھی ارشاد فرمایا گیا: ﴿ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ ﴿٥﴾ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ ﴿٦﴾ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ ﴿٧﴾ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ ﴿٨﴾ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ ﴿٩﴾ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ ﴿١٠﴾[3] ’’پس جس نے (اللہ کی راہ میں مال) دیا اور پرہیزگاری کی اور نیک بات کی تصدیق کی پس ہم اسے آسانی (کی راہ) کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنا رہا اور نیک بات کی تکذیب کی پس ہم اسے تنگی (کی راہ) کی توفیق دیں گے۔‘‘ غرضیکہ ہر انسان کا حال یسر و عسر اور آسائش و تنگی ہی پر منحصر ہے: ﴿ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ ﴿٧﴾ جو انسان اپنے آپ کو منعمِ حقیقی کی نوازشات سے مشرف اور اخلاقِ حسنہ سے
[1] متفق علیہ [2] متفق علیہ [3] اللیل: 5 تا 10