کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 18
ابقار المنن بالقار المحن بسم الله الرحمٰن الرحيم اَلْحَمْدُلَلّٰهِ عَليٰ مِنَنِهٖ وَنِعِمِهٖ وَ نَوَالِهٖ زَهَاءَ جَلَالَهٖ وَجَمَالِهٖ وَ الصّٰلٰوةُ وَالسَّلَامُ عَليٰ خَيْرِ خَلْقِهٖ مُحَمَّدِ نِ الَّذِيْ بَلَغَ الْعُلٰي بِكَمَالَهٖ وَحَسَنَتْ جَمِيْعُ خَصَالَهٖ وَعَليٰ صَحْبِهٖ وَاٰلِهٖ وَمَنْ عَليٰ مِنْوَالِهٖ یہ ایک مختصر رسالہ ہے جس میں ان انعامات کا تذکرہ کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فرمائے ہیں۔ اس رسالے کی تصنیف کا سبب دو امر ہیں: اول منعمِ حقیقی کا شکر بجا لانا مقصود ہے، اگرچہ مجھ میں یا کسی بھی بشر میں یہ طاقت نہیں کہ اس سے عہدہ برآ ہو سکے۔ ہاں انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اس فریضہ سے یقیناً عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کے حق میں فرمایا: ﴿ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا ﴿٣﴾[1] ’’بےشک وہ شکر گزار بندہ تھا۔‘‘ دوم اپنے متعلق لوگوں کے بعض اوہام کا ازالہ مطلوب ہے۔ کیونکہ ہر انسان کو اپنے متعلق جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یقینی ہوتا ہے اور جو کوئی دوسرا بیان کرتا ہے وہ ظنی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ بَلِ الْإِنسَانُ عَلَىٰ نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ ﴿١٤﴾ وَلَوْ أَلْقَىٰ مَعَاذِيرَهُ ﴿١٥﴾[2] ’’بلکہ انسان کو اپنے آپ کا خوب پتہ ہے اگرچہ کتنے عذر پیش کرتا رہے۔‘‘
[1] بنی اسرائیل: 3 [2] سورۃ القیامہ: آیت 14