کتاب: سوانح حیات نواب سید محمد صدیق حسن خان - صفحہ 121
فوائد مجموعة‘‘ سفرِ حج سے لائے تھے اور اُنہوں نے امام شوکانی رحمہ اللہ سے بذریعہ تحریر علومِ شرعیہ کی سند اور اجازتِ روایت بھی حاصل کی تھی۔ یہ بات مولوی عبداللہ خان علوی رحمہ اللہ شاگرد مولانا محمد اسماعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ اور استاد مولوی امام بخش صبہائی نے اپنے رسالہ ’’المنهج السديد في رد التقليد‘‘ میں چشم دید لکھی ہے۔ میرے والدِ مرحوم نے مولوی عبدالحی مرحوم کے نسخہ سے ’’درد بہیہ‘‘ کو نقل فرمایا تھا۔ وللہ الحمد
مولوی عبدالقیوم رحمہ اللہ، مولوی اسحاق مہاجر مکہ معظمہ کے داماد تھے۔ کتبِ حدیث اور ترجمہ موضح القرآن وغیرہ پڑھتے پڑھاتے رہے۔ اور اپنے بزرگوں کے طریقہ پر قائم رہے۔ 1299ھ میں ان کا وطن جا کر انتقال ہو گیا تھا۔ (رحمہ اللہ تعالیٰ)
میں نے انہیں خواب میں دیکھا تو انجامِ حال کے متعلق سوال کیا تو اُنہوں نے مجھ سے کہا:
’’ویسا حال نہیں دیکھا جیسا کہ ہم سنتے تھے۔‘‘
میں سلوک سبیلِ علم میں اپنے باپ، ان کے مشائخ اور اپنے شیوخِ علم کے طریقہ پر چل رہا ہوں۔ ’’قول جمیل‘‘ میں عالمِ ربانی کے منجملہ آداب و علامات میں سے یہ بھی لکھا ہے کہ علمِ تفسیر، حدیث، فقہِ سنت و سلوک یعنی تصوف سنی، عقائد اور صرف و نحو کا درس دے اور کلام و اصول اور منطق وغیرہ میں مشغول نہ ہو۔ مولانا عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس جگہ اصول کا کلام پر عطف تفسیری ہے۔ اس لیے کہ کلام کو اصول بھی کہتے ہیں۔ یہاں اصولِ فقہ یا اصولِ حدیث مراد نہیں۔
دوسری علامت یہ ہے کہ تلقینِ اشغال کرے، ایک وقت بیٹھ کر لوگوں پر توجہ دے، القاءِ سکینہ کرے کیونکہ اتمام حجتِ الٰہی استطاعتِ ممکنہ و میسرہ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ میسرہ میں صحبت رکھنا اور اشغال پر قولاً و فعلاً و تصرفاً بالقلب