کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 98
(( لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوقٍ فِيْمَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ)) [1] ’’خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے۔‘‘ 3 اگر حاکم ظالم و جابر ہو تو اس کے ظلم و ستم پر صبر کرے، فوراً بغاوت پر نہ اُتر آئے کیونکہ صبر کرنا شریعت کے اہم اصولوں میں سے ایک ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی ہے: (( مَنْ کَرِہَ مِنْ أَمِیْرِہٖ شَیْئاً فَلْیَصْبِرْ فَاِنَّہٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْراً مَاتَ مِیْتَۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ)) [2] ’’اگر کسی کو اپنے امیر کی کسی چیز یا بات سے نفرت ہو تو وہ اس پر صبر کرے کیونکہ جو شخص سلطانِ وقت کی اطاعت سے ایک بالشت بھی باہر نکلا اور اسی حالت میں مر گیا تو وہ گویا جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ 4 شیخ رحمہ اللہ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ حکام و امراء میں سے اگر کسی سے کوئی ناجائز و منکر فعل صادر ہوتا دیکھتے یا سنتے تو پردے کے ساتھ تنہائی میں ان کو نصیحت کرتے اور حق کی طرف ان کی رہنمائی کرتے اور کسی کا نام لیے بغیر مطلقاً اس برائی کے خلاف اپنے دروس و خطبات میں بھی آواز اٹھاتے۔ اس سلسلہ میں ان کا عمل اُس حدیث شریف پر تھا جس میں ارشادِ نبوی ہے: (( مَنْ أَرَادَ أَنْ یَّنْصَحَ لِسُلْطَانٍ بِأَمْرٍ فَلَا یَبْذُلْہُ عَلَانِیَۃً وَ لَٰکِنْ لِیَأْخُذْ بِیَدِہٖ فَیَخْلُوْ بِہٖ فَاِنْ قَبِلَ مِنْہُ فَذَاکَ وَ اِلَّا کَانَ قَدْ أَدَّیٰ الَّذِيْ عَلَیْہِ)) [3] ’’جو شخص اپنے حاکمِ وقت کو نصیحت کرنا چاہے اسے چاہیے کہ اسے
[1] صحیح الجامع، رقم الحدیث (۷۵۲۰) [2] صحیح البخاري، رقم الحدیث (۶۶۴۵) صحیح مسلم، رقم الحدیث (۱۸۴۹) [3] مسند أحمد (۳/۴۳) مستدرک حاکم (۳/ ۲۹۰) و الحدیث صحیح بطرقہٖ۔