کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 83
پڑھنے کے نتیجے میں ہوا۔ یہ خط سن کر شیخ رحمہ اللہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔[1] دار الافتاء سعودی عرب سے نکلنے والے ’’مجلۃ البحوث الإسلامیہ‘‘ کے ایڈیٹر اور شیخ رحمہ اللہ کے دستِ راست ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک سعودی وفد افریقہ کے جنگلات میں کسی مہم پر گیا تو ایک بوڑھی عورت وفد کے پاس آکر ایک شخص سے پوچھنے لگی: کیا تم لوگ سعودی عرب سے آئے ہو؟ اس نے کہا: ہاں،تو اس بڑھیا نے کہا: شیخ ابن باز کو میرا سلام پہنچانا، وفد کے اس ممبر نے اس سے پوچھا: تم انھیں کیسے جانتی ہو؟ اس نے بتایا: میں اور میرا شوہر کرسچن تھے اور ہم مسلمان ہوگئے، اس پر ہمارے اعزاء و اقارب نے ہمیں بہت ستایا اور یہ روئے زمین تمام تر وسعتوں کے باوجود ہمارے لیے تنگ کردی گئی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ اللہ کے بعد اس دنیا میں ہماری مدد کون کرسکتا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: اللہ کے بعد تمہاری مدد شیخ ابن باز کے سوا کوئی نہیں کرے گا۔ میں نے انھیں خط لکھا اور مجھے خط کے ان تک پہنچنے اور جواب کی کوئی توقع نہیں تھی لیکن اچانک ایک دن ہمیں سعودی سفارت خانے سے بلاوا آیا، وہاں گئے تو پتہ چلا کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ہماری امداد کے لیے دس ہزار ریال بھیجے ہیں۔یہ اللہ کے بعد اس شخص(شیخ ابن باز رحمہ اللہ) کا ہمارے ساتھ بہت بڑا تعاون تھا۔[2] 2 دار الافتاء کے ایک ملازم کا بیان ہے کہ فلپائن سے ایک عورت کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ میرا شوہر مسلمان تھا، اسے عیسائیوں نے کنویں میں گرا کر قتل کردیا ہے، میں بیوہ اور میرے بچے یتیم ہوگئے ہیں اور اللہ کے بعد ہماری
[1] مواقف مضیئہ تالیف حمود المطر (ص: ۱۵) و کیسٹ: ورحل الإمام ابن باز۔ [2] بحوالہ إمام العصر (ص: ۱۴۳) جریدہ الریاض (شمارہ: ۱۱۴۹۵) و الإنجاز (ص: ۴۵۴) و الدرر الذہبیۃ (ص: ۴۸۔ ۴۹) و کتاب مواقف مضیئۃ في حیاۃ الإمام عبد العزیز ابن باز، تألیف حمود بن عبد اللّٰه المطر (ص: ۷) الإنجاز (ص: ۴۵۲۔ ۴۵۴)