کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 80
دن بھی چھٹی طلب نہیں کی، چوبیس گھنٹوں میں صرف ۴ یا ۵ گھنٹے سوتے یا آرام کرتے تھے باقی سارا وقت روزانہ ذکر و عبادت، علمی نشر و اشاعت، فتویٰ اور مسلمانوں کی ضرورتیں اور مسائل حل کرنے میں صرف ہوتا تھا۔
آپ نے کئی مرتبہ اس بات کا اظہار بھی فرمایا کہ میں بیس سال سے مکمل تنخواہ کے ساتھ پنشنر ہونے کا حق دار ہو چکا ہوں لیکن میں نے پینشن لے کر بیٹھنے سے کام کرتے رہنے کو ترجیح دے رکھی ہے تا کہ مسلمانوں کی کچھ اور خدمت اور دین کی کچھ مزید مدد و نصرت کر سکوں۔[1]
سرکاری ڈیوٹی اور عبادت وذکر سے متعلقہ چند حقائق:
شیخ رحمہ اللہ وزیر کے درجۂ علیا کے سرکاری افسر و مفتی ٔ اعظم تھے، اس کے باوجود آپ کی طبیعت میں ’’افسری‘‘ نہیں تھی بلکہ ’’سرکاری ڈیوٹی‘‘ کے طور پر عام ملازمین سے بھی زیادہ وقت کام کو دیتے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی وہ’’حقوق اللہ’‘کی ادائیگی میں اتنے مستعد تھے کہ شاید و باید، اس سلسلہ میں ان کے ساتھ کام کرنے والے کاتبوں اور دیگر ملازمین کے حوالے سے شیخ عبد الرحمن الرحمہ نے اپنی سوانحی کتاب ’’الإنجاز في ترجمۃ الإمام ابن باز‘‘ اور ’’الدرر الذہبیۃ‘‘ میں اور ڈاکٹر الزہرانی نے ’’امام العصر‘‘ میں،چند حقائق و واقعات ذکر کیے ہیں جنہیں ہم یہاں نقل کرکے اپنے آپ اور اپنے محترم قارئین کو دعوتِ عمل دے رہے ہیں :
1 شیخ کے ایک کاتب کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ مکہ مکرمہ گیا اور رات کو مختلف معاملات کے اوراق ان کے سامنے پڑھتا رہا حتیٰ کہ رات کے گیارہ بج گئے، تب جاکر شیخ نے فرمایا کہ لگتا ہے کہ کچھ تھک گئے ہیں لہذا کچھ آرام کرلیں (اور حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف کاتب کی رعایت رکھتے ہوئے
[1] الإنجاز (ص: ۴۴۴ تا ۴۵۱)