کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 64
عبدالعزیز اور اپنے استاذ سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ کے حکم سے یہ منصب قبول کیا۔ شروع میں اس ذمہ داری سے بھرپور انداز سے پہلو بچاتے رہے لیکن ان کے استاد شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ اور ولی امر المسلمین شاہ عبد العزیز آل سعود نے آپ کو یہ منصب قبول کرنے پر راضی کرہی لیا۔ موصوف نے الخرج کے مرکزی صدر مقام الدلم کی قضاء کا منصب سنبھالا، موصوف الدلم پہنچے تو سب سے پہلے وہاں کی مسجد الجامع الکبیر میں گئے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے وہاں دو رکعتیں پڑھیں،پھر تھوڑی دیر کے لیے الدلم کے اس وقت کے امیر ناصر بن سلیمان الحقبانی رحمہ اللہ کے گھر آرام کیا اور سلام کے لیے آئے ہوئے لوگوں کو مختصر خطاب کیا، وہیں قاضی کے لیے بنائی گئی سرکاری رہائش گاہ میں اقامت گزیں ہوئے۔ یہ مکان امام عبد اللہ بن فیصل بن ترکی نے بنوا کر قاضی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ شیخ صبح سے لے کر نمازِ ظہر تک مجلسِ قضاء میں بیٹھا کرتے تھے اور کبھی کبھی عصر کے بعد بھی فیصلے سناتے تھے، ’’جو پہلے آئے پہلے پائے‘‘ کا نظام وہاں شیخ نے رائج کیا اور رجسٹرز اور قضایا وفیصلوں کے اندراج اور بوقتِ ضرورت بعض لوگوں کے فیصلوں کے صکوک اور مثلیں جاری کرنے کا آغاز کیا، جبکہ ابھی سرکاری طور پر باقاعدہ شرعی کورٹ کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ پھر ۱۳۶۸ھ میں الدلم میں باقاعدہ المحکمۃ الشرعیۃ (شرعی کورٹ) کا آغاز ہوگیا۔ یہاں طالب علمی کے ساتھ ساتھ شیخ کے کاتب کی حیثیت سے جن لوگوں نے کام کیا ان میں سے معالی الشیخ راشد بن صالح بن خنین، مشیر دیوانِ حاکم و ممبر ہیئۃ کبار العلماء، معالی الشیخ عبد اللہ المسعری، سابق رئیس دیوان المظالم، شیخ صالح بن حسین العلی رحمہ اللہ،شیخ عبد اللطیف بن شدید رحمہ اللہ اور شیخ صالح بن عبدالعزیز بن ہلیل خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔