کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 34
شیخ ابنِ عتیق کا منصب:
جب وہ حج اور حصولِ علم سے فارغ ہوکر اپنے علاقہ میں آئے تو امام عبد اللہ الفیصل آل سعود نے انھیں الافلاج کا قاضی مقرر کر دیا یہاں تک کہ ملک عبدالعزیز نے ۱۳۱۹ ھ میں الریاض کو فتح کیا اور الافلاج پر بھی قبضہ کرلیا تو انھوں نے شیخ کو الریاض میں منتقل کرکے الریاض کے گرد و نواح کے تمام علاقوں کا قاضی مقرر کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں الریاض کی الجامع الکبیر کی امامت و خطابت بھی سپرد کردی اور اس میں وہ صبح اور دوپہر دو نشستوں میں انتہائی علمی درس بھی دیا کرتے تھے۔
شیخ ابن عتیق کے چندمعروف تلامذۂ کرام یہ ہیں :
1 سماحۃ الشیخ عبد اللہ بن حسن رئیس القضاۃ (چیف جسٹس)۔
2 سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم رئیس القضاۃ۔
3 سماحۃ الشیخ عمر بن حسن رئیس الہیئات للامر بالمعروف (منطقہ وسطیٰ و شرقیہ)۔
4 شیخ عبد اللطیف بن ابراہیم نائب رئیس المعاہد و الکلّیات (انسٹی ٹیوٹس اور کالجز)۔
5 معروف ریسرچ اسکالر استاد حمد الجاسر۔
6 معروف شاعر محمد بن عثیمین۔
7 شیخ محمد بن رشید قاضی الرس (القصیم)اور دیگر کثیر علماء نے ان سے کسبِ فیض کیا۔
شیخ ابن عتیق نے افتاء و تالیف میں بھی کام کیا، ان کی تصنیفات کئی مجلّدات پر مشتمل ہیں،صرف ایک کتاب ’’المجموع المفید‘‘ میں ان کے چالیس رسائل کو جمع کرکے شائع کردیا گیاہے نیز دیگر کتب و رسائل اور فتاویٰ ان کے علاوہ ہیں۔وہ ۱۳؍ جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۴۹ھ میں الریاض میں فوت اور دفن ہوئے۔[1]
[1] الإنجاز (ص: ۷۹۔ ۸۷)