کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 33
جہاں کبار اہلحدیث علماء میں سے شیخ العرب و العجم علامہ سید نذیر حسین محدّث دہلوی، والا جاہ علامہ نواب صدیق حسن خان قنوجی والی ٔریاست بھوپال، اسی طرح شیخ شریف حسین، شیخ محمد بشیر سندھی، شیخ سلامت اللہ ہندی، شیخ حسین بن محسن یمانی (نزیل الہند) سے نو سال تک حصولِ علم میں مشغول رہے اور اجازات و شہادات حاصل کیں۔علامہ سیّد نذیر حسین اور علامۂ یمانی سے ان کے اجازہ حاصل کرنے کا خصوصی ذکر ملتا ہے۔
علماء اہلحدیث پاک و ہند سے تلمذ و تعلق:
سابقہ سطورسے معلوم ہوا کہ علّامہ ابن باز رحمہ اللہ بالواسطہ ہندوستان اور خصوصاً علماء اہلحدیث سے فیض یافتہ تھے جو ہندوستان کے لیے بالعموم اور اہلحدیث کے لیے بالخصوص ایک اعزاز ہے۔ ہندوستان سے تحصیلِ علم سے فارغ ہو کر حج کے لیے مکہ مکرمہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں بھی کبار نجدی، حجازی اور ہندی علماء (شیخ محمد بن سلیمان حسب اللہ الہندی) سے خوب خوب استفادہ کیا۔
سماحۃ الشیخ رحمہ اللہ کے حضرت العلام حافظ عبد اللہ محدّث روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کے ساتھ مثالی تعلقات تھے حتیٰ کہ موصوف نے محدّث روپڑی کو پیشکش کی تھی کہ وہ مدینہ یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے تشریف لے آئیں لیکن حضرت روپڑی نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر دی تھی۔ انھوں نے اپنے حواشی والی فتح الباری بطورِ ہد یہ محدّث روپڑی کو پیش کی تھی۔ آپ نے فتح الباری کو شروع سے ملاحظہ کیا تو فرمایا کہ فلاں مقام پر بھی حاشیہ ہونا چاہیے تھا۔ اس پر شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔[1]
[1] ضمیمہ ہفت روزہ الاعتصام لاہور (جلد :۵۲، شمارہ: ۸) بابت: ۲۵؍ ذو القعدۃ ۱۴۲۰ھ، ۳؍ مارچ ۲۰۰۰ء مضمون استاذی شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خان بروفات حافظ عبد القادر روپڑی۔