کتاب: امام العصر سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ - صفحہ 32
کے دار السلطنت الریاض کا قاضی مقرر کر دیا۔
انھوں نے افتاء و تدریس کے میدان میں بھی خوب جوہر دکھلائے،سعودی عرب کے سابق مفتی ٔ اعظم سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم اور دار الیمامہ للبحث و الترجمہ و النشر کے مالک شیخ حمد بن محمد بن جاسر اور کثیر اہلِ علم نے ان سے استفادہ کیا۔ ان کا مکتبہ (لائبریری) وسعتِ مکان، کثرتِ کتب اور خزانۂ محفوظات ہونے کے لحاظ سے نجد میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ وہ خود عقیدۂ توحید اور دیگر امور پر کئی کتابوں کے مصنف بھی تھے، وہ بروز اتوار ۲؍جمادی الآخرہ ۱۳۶۷ھ میں فوت ہوئے۔
ان کے تین بیٹے عبد الرحمن، عبد اللہ اور ابراہیم تھے، اور انہی کے نامور پوتے سماحہ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ آل الشیخ ہیئۃ کبار العلماء اور اللجنہ الثقافیہ الخماسیہ کے ممبر، الجامع الکبیر الدیرہ، الریاض کے امام و خطیب، مسجد نمرہ (عرفات) میں دسیوں سال سے امام و خطیبِ حج چلے آرہے ہیں نیز علامہ ابن باز رحمہ اللہ کی وفات کے ساتھ ہی ان کی جگہ پر وہ خادم الحرمین الشریفین کے شاہی فرمان سے ہیئۃ کبار العلماء کے رئیس اور سعودی عرب کے مفتی ٔاعظم کے عہدے پر بھی فائز کر دیے گئے ہیں۔[1]
وَفَّقَہٗ اللّٰہُ لِکُلِّ مَا فِیْہِ خَیْرُ الْاِسْلَامِ وَ الْمُسْلِمِیْنَ۔
2 شیخ عبد اللہ بن عبد اللطیف ان سے بعض کتبِ توحید و فقہ او رکتبِ حدیث پڑھیں۔[2]
3 شیخ سعد بن حمد بن علی بن عتیق رحمہ اللہ۔مرحوم حوطہ بنی تمیم کے ایک گاؤں الجلوۃ میں (صحیح تر قول کے مطابق) ۱۲۶۸ھ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اور پھر ۱۳۰۱ھ میں حصولِ علم کے لیے ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔
[1] الإنجاز (ص: ۷۲۔ ۷۸)
[2] الشیخ ابن باز للندوۃ (ص: ۷) ملحق جریدہ المدینہ، الأربعاء ۴؍ صفر ۱۴۲۰ھـ)